انگریزی ادب  سے آگاتھا کرسٹی کی ایک شاہکار کہانی

قتل یا خودکشی

مارکیٖٹ بیسنگ نامی دیہاتی قصبہ میں  ایک شخص کی بند کمرے میں فرش پر پڑی نعش ملتی ہے۔ اس کے سر میں گولی کا زخم تھا اور داہنے ہاتھ میں پستول۔  دیکھنے میں تو یہ ایک خودکشی کا کیس تھا، لیکن اسکاٹ لینڈ یارڈ  پولیس کا ماننا  تھا  کہ اس شخص نے خودکشی نہیں کی بلکہ اس کا قتل ہوا ہے۔   لیکن اگر اس کا قتل ہوا ہے تو پھر قاتل کون  ہے....  مشہور پرائیویٹ  جاسوس ہرکوئل پائرو   نے جرم کی اس  پُراسرار واردات کو  نہایت ذہانت  سے حل کرلیا۔

‘‘قتل یا خودکشی ’’ دراصل آگاتھا کرسٹی  کی کہانی  The Market Basing Mystery کا ترجمہ ہے جو  1923ء میں لکھی گئی اور 1974ء میں آگاتھا کرسٹی کی کہانیوں کے مجموعہ Poirot’s EarlyCases میں شایع ہوئی  تھی۔ یہ کہانی  مشہور جاسوس ہرکوئل پائرو  کے  ابتدائی کارناموں میں سے ایک ہے ۔     

حیرت اور تجسس پیدا کرنے والی ایک پُراسرار کہانی....



’’دیہات جیسی پرفضا جگہ اور کوئی نہیں....‘‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے انسپکٹر جیپ Jappنے اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
میں نے اور ہرکیول پائرو Hercule Poirot نے اس خیال کی پرزور تائید کی۔ انسپکٹر کی تجویز یہ تھی کہ ہم ہفتے کے آخری دو دن دیہاتی قصبے مارکیٹ بیسنگMarket Basing  میں گزاریں۔  ہم نے اس تجویز کو اپنے دل کی آواز خیال کیا تھا۔
جیپ کو علم نباتات سے گہرا شغف تھا۔ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر وہ مختلف پودوں اور پھولوں کی تحقیقات میں لگ جاتا۔ شاید اس کا یہی شوق اسے دیہات کی طرف راغب رکھتا تھا۔
اتوار کی صبح ہم قصبے کی سرائے کے برآمدے میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ انڈے اور تلا ہوا گوشت بہت ہی عمدہ تھا۔ انسپکٹر جیپ نے کہا:
 ’’میرا ارادہ ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد دیہات میں ایک چھوٹا سا مکان خرید لوں اور جرائم کے ماحول سے دور زندگی بسر کروں۔‘‘
ہرکیول پائرو نے توس کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے کہا ’’لیکن جرائم کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے۔‘‘
میں نے دو شعر گنگنا کر پڑھے جن میں خرگوش کی ظاہری خوبصورتی اور غلیظ عادتوںکاذکر تھا۔
’’میں آپ کے ساتھ ہوں مسٹر پائرو! آپ اپنے بارے میں فیصلہ کریں....!‘‘
پائرو نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا :
’’آدمی کو اپنا پیٹ اتنا نہیں بھرنا چاہیے کہ دماغ کام کرنے سے انکار کردے۔‘‘
جیپ بولا ’’میں بہرحال یہ خطرہ مول لوں گا، خدا کے فضل سے میرا معدہ بھی کافی حجم رکھتا ہے اور ویسے مسٹر پائرو آپ بھی تو اچھے خاصے تنو مند نظرآتے ہیں۔‘‘ 
یہ کہہ کر اس نے سرائے کی ویٹرس کو دو آدمیوں کے لیے مزید انڈے اور گوشت کا آرڈردیا۔
اسی لمحے ایک قد آور شخص دروازے میں داخل ہوتا نظر آیا۔ یہ کانسٹیبل پولرڈ Pollard تھا۔ وہ بےتکلفی کے انداز میں بولا :
’’حضرات تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں، لیکن اس وقت مجھے انسپکٹر صاحب کی رہنمائی کی سختضرورت ہے!‘‘
’’میں رخصت پر ہوں۔‘‘ جیپ نے جلدی سے کہا۔ ’’مجھے اس وقت کسی کام سے سروکار نہیں، ویسے آپ فرمائیں معاملہ کیا ہے....؟‘‘
’’لے ہاؤس Leigh Houseکے ایک مکین نے اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی ہے جناب!‘‘ پولرڈ نے لجاجت کے انداز میں کہا۔
’’دوسرے اس کے بارے میں ضروری کارروائی کرلیں گے۔‘‘ جیپ نے بےحسی سے کہا۔  ’’میرا خیال ہے قرض یا کسی عورت سے معاشقہ وغیرہ اس کا باعث ہوگا۔ افسوس ہے پولرڈ میں تمہاری مددنہیںکرسکتا۔‘‘
’’بات یہ ہے جناب کہ وہ خود کو اس طرح گولی نہیں مار سکتا۔‘‘ ڈاکٹر گائلز  Dr Gilesکا یہی خیال ہے۔‘‘ پولرڈ نے کہا۔
’’خود کو گولی نہیں مارسکتا تھا! کیا مطلب....؟‘‘ جیپ نے پولرڈ کی طرف گہری نظروں سے دیکھا۔
’’ڈاکٹر کا یہی کہنا ہے جناب!‘‘ پولرڈ نے دوبارہ کہا۔ ’’وہ کہتا ہے کہ یہ ناممکن ہے، اگرچہ وہ سخت مخمصے میں ہے، کیونکہ کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل تھا اور کھڑکیاں بھی بند تھیں، تاہم اس کا کہنا تھا کہ متوفی خودکشی کا ارتکاب نہیں کرسکتا تھا۔‘‘
’’پھر تو معاملہ واقعہ الجھا  ہوا ہے!‘‘ جیپ نے انڈوں اور گوشت کا آرڈر کینسل کردیا اور چند منٹ بعد ہم سب تیزی سے ’’لے ہاؤس‘‘ کی طرف رواںدواں تھے۔
جیپ راستے میں کانسٹیبل سے حالات پوچھتا جاتا تھا اور وہ اسے بتا رہا تھا:
’’متوفی کا نام والٹر پروتھ رو  Walter Protheroeتھا۔ وہ درمیانی عمر کا ایک خلوت پسند انسان تھا۔ آٹھ سال پیشتر مارکیٹ بیسنگ میں ’’لے ہاؤس‘‘ کرائے پر لے کر رہائش پذیر ہوا۔ یہ ایک قدیم اور خستہ عمارت ہے جو رفتہ رفتہ منہدم  ہوتی جارہی ہے۔ وہ اس عمارت کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ اس کے امور خانہ داری کی نگران مس کلیگ Miss Cleggتھی جسے وہ ساتھ لایا تھا۔ وہ ایک معمر، سنجیدہ اور باوقار عورت ہے جسکے بارے میں بستی کے لوگ اعلیٰ رائے رکھتے ہیں۔ وقوعہ کے دن لندن سے آئے ہوئے دو مہمان مسٹر اور مسز پارکر Parkerاس کے ساتھ دوسرے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس صبح مس کلیگ نے والٹر کو آواز دی تو کوئی جواب نہ ملا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ یہ دیکھ کر اسے خطرے کا احساس ہوا اور اس نے پولیس کو بلانے کے لیے فون کیا۔ میں اور ڈاکٹر گائلز فوراً موقع پر پہنچ گئے اور خواب گاہ کا دروازہ توڑ ڈالا۔
مسٹر پروتھ رو کی نعش فرش پر پڑی تھی۔ اس کے سر میں گولی کا زخم تھا اور داہنے ہاتھ میں پستول۔
یہ واضح طور پر ایک خودکشی کا کیس تھا، لیکن نعش کا معائنہ کرکے ڈاکٹر گائلز نے مجھے اپنی اس رائے سے آگاہ کیا کہ اس شخص نے خودکشیہرگزنہیں کی۔
کانسٹیبل کی بات ختم ہوئی تھی کہ ہم ’’لےہاؤس‘‘ پہنچ گئے۔ یہ ایک وسیع اور ویران مکان تھا جس کے چاروں طرف ایک بےرونق باغ تھا۔ دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ہر طرف خود رو پودے اُگے ہوئے تھے۔
سامنے کا دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے گزر کر ہم ہال میں پہنچ گئے اور وہاں سے ایک چھوٹے نشست کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کمرے میں چار افراد موجود تھے۔ ایک مرد بھڑکیلا لباس پہنے ہوئےتھا اور اس کا چہرہ بےکشش تھا۔ اس کے علاوہ دو عورتیں تھیں۔ ایک عورت، جو شکل صورت کے اعتبار سے معزز نظر آتی تھی، کچھ متفکر تھی۔ دوسری عورت صاف سیاہ لباس پہنے سب سے الگ کھڑی تھی۔ اس کے بارے میں میں نے اندازہ لگایا کہ وہ گھر کی منتظمہ ہے۔ چوتھا ایک قدآور شخص تھا جو شوخ رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے تھا اور جس کے چہرے پر فراست اور لیاقت کے آثار نمایاں  تھے۔
’’ڈاکٹر گائلز!‘‘ کانسٹیبل نے کہا ’’یہ سراغرساں انسپکٹر مسٹر جیپ ہیں اور ان کے ہمراہ ان کےدودوست ہیں:
ڈاکٹر نے ہماری پذیرائی کی اور ہمیں مسٹر  اور مسز پارکر سے متعارف کرایا، پھر ہم اس کے ساتھ زینے کے راستے اوپر گئے۔ جیپ کے اشارے پر پولرڈ نیچے ہی رہا، گویا اس کو گھر کے افراد کی نگرانیکرنا تھی۔
گیلری سے ہو  کر ہم ایک ایسے کمرے کے سامنے پہنچے جس کا ٹوٹا ہوا دروازہ کمرے کے اندر کی طرف گرا پڑا تھا۔ نعش اب تک فرش پر پڑی تھی۔ متوفی مسٹر پروتھ رو درمیانی عمر کا آدمی تھا۔ اس کی ڈاڑھی اور کنپٹیوں کے بال سفید ہونے لگے تھے۔
جیپ آگے بڑھا اور نعش کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہا:
’’آپ نے اس کو اسی حالت میں کیوں نہ رہنے دیا جس میں کہ اسے پایا گیا تھا....؟‘‘
ڈاکٹر نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا: ’’ہم نے اس کو واضح طور پر خودکشی کا کیس سمجھا تھا۔ یہ تو گمان بھی نہ تھا کہ اسے قتل کیا گیا ہوگا۔‘‘
جیپ نے کہا: ’’گولی بائیں کان کے پیچھے سے سر میں داخل ہوئی ہے۔‘‘
’’جی بالکل یہی صورت ہے اور صاف ظاہر ہے اس کے لیے یہ گولی خود چلانا ناممکن تھا۔ اس کے لیے اسے  اپنا ہاتھ سر کے گرد موڑنا پڑتا جبکہ اضطراری حالت میں آدمی ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔‘‘ ڈاکٹر نےرائے ظاہرکی۔
جیپ نے کہا: ’’آپ نے پستول اس کے ہاتھ میں دیکھا تھا۔ وہ پستول کہاں ہے....؟‘‘
ڈاکٹر نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’لیکن یہ اس کی انگلیوں کی گرفت میں نہ تھا۔ میرا مطلب ہے ہاتھ میں تو تھا، لیکن انگلیاں اس کے گرد لپٹی ہوئی نہ تھیں۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے بعد میں وہاں رکھا گیا....؟‘‘ جیپ نے کہا۔
’’یہ بات بالکل واضح ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے پستول اٹھا کر دیکھا۔ ’’صرف ایک کارتوسچلاہواہے۔‘‘
’’اگرچہ ہم انگلیوں کے نشانات تلاش کریں گے، لیکن ڈاکٹر گائلز! مجھے اندیشہ ہے کہ اس کوشش سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ویسے اس کو مرے کتنا وقت گزر چکا ہے....؟‘‘
’’گزشتہ رات یہ حادثہ رونما ہوا ہے۔ میں بالکل صحیح وقت کا تعین نہیں کرسکتا جیسا کہ سراغرساں کی کہانیوں میں ہوشیار ڈاکٹر کرتے ہیں۔ اندازاً اس کو مرے ہوئے کم و بیش بارہ گھنٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘
اس وقت تک پائرو نے گفتگو میں حصہ نہ لیا تھا۔ وہ کبھی کبھی اس طرح سانس لیتا گویا کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے بھی سونگھنے کی کوشش کی، مگر ہوا صاف تھی اور کسی قسم کی بُو محسوس نہ ہوتی تھی، پھر بھی وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کےبعد مشکوک انداز میں سونگھنے کی کوشش کرتا، گویا اس کی حساس قوت شامہ کوئی ایسی بُو محسوس کرتی ہو جو میں محسوس نہ کرسکا تھا۔
جیپ نعش کے پاس سے ہٹ گیا، تو پائرو اس کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس کی توجہ نعش کی آستین میں اڑے ہوئے رومال کی طرف تھی۔ آنجہانی پروتھ رو گہرے سلیٹی رنگ کا لاؤنچ سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ ذرا دیر بعد پائرو اٹھ کھڑا ہوا۔ بشرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے دماغ میںکوئیالجھنہے۔
جیپ نے ٹوٹا ہوا دروازہ اٹھانے کے لیے پائرو کو مدد کے لیے بلایا ۔ وہ وہاں سے ہٹا تو میں نعش کے قریب بیٹھ گیا اور آستین سے رومال نکال کر بغور دیکھا۔ یہ ایک سادہ سفید کیمرک cambric کا رومال تھا، اس پر کوئی نشان یا دھبہ نہ تھا۔ میں نے رومال دوبارہ آستین میں رکھ دیا اور کھڑا ہوگیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ پائرو کو اس رومال میں کیا خاص بات نظر آئی تھی۔
دروازہ اٹھانے کے بعد جیپ نے چابی تلاش کی، لیکن نہ ملی۔ وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولا:
’’اس سے بات صاف ہوگئی، کھڑکی بند ہے اور اس کی چٹخنی چڑھی ہوئی ہے۔ قاتل دروازے کے راستے واپس گیا اور اس کا تالا لگا کر چابی ساتھ لے گیا۔ یہ طریقہ اس نے اس خیال سے اختیار کیا کہ پروتھ رو کے بارے  میں سمجھا جائے اس نے اندر سے دروازے کا تالا لگا کر خود کو پستول سے ہلاک کیا ہے۔ کیوں مسٹر پائرو، کیا آپ کو میرے اس خیالسےاتفاق ہے....؟‘‘
’’ہاں میں اتفاق کرتا ہوں، لیکن میرے نزدیک یہ بات مشکل نہ تھی کہ چابی دروازے کے نیچے سے اندر ڈال دی جاتی۔ ایسا کیا جاتا، تو عام تاثر یہ ہوتا کہ چابی تاے سے نیچے گر گئی ہے۔‘‘
’’اوہ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ ہر شخص ایسا ہی تیز فہم ہوگا جیسے کہ آپ ہیں۔ مسٹر پائرو اگر آپ جرائم پیشہ ہوتے، تو بڑے ہی خطرناک ثابت ہوتے۔ کچھ اور ارشاد....؟‘‘
پائرو کسی گہرے خیال میں گم تھا۔ اس نے جیپ کی طرف دھیان نہ دیا۔ وہ نعش کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا: ’’ میرا خیال ہے یہ شخص تمباکو نوشی بکثرت کرتا تھا۔‘‘ یہ بات ٹھیک تھی کیونکہ آتش دان میں اور آرام کرسی کے پاس رکھی ہوئی ایش ٹرے میں بڑی  تعداد میں سگریٹ کے ٹکڑے تھے۔
جیپ  نے جھک کر ایش ٹرے کو دیکھا اور کہا: ’’رات اس نے تقریبا ً بیس سگریٹ پیے ہوں گے۔ وہ سب ایک ہی قسم کے ہیں، لیکن مسٹر پائرو اس سے کوئی نتیجہ تو اخذ نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ کثرت سے سگریٹ پیتے ہیں۔‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اس سے کچھ نتیجہ نکلتا ہے۔‘‘ پائرو نے آہستہ سے کہا۔
’’اہا!‘‘ جیپ نے زور سے کہا۔ ’’یہ کیا ہے....؟‘‘  اس نے جھپٹ کر ایک چمکدار چیز نعش کے پاس سے اٹھالی۔ یہ ایک ٹوٹا ہوا کف لنکcuff-link  تھا۔ وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا: ’’ڈاکٹر گائلز! میں شکر گزار ہوں گا، اگر آپ نیچے جاکر گھر کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون کو اوپر بھیج دیں! اس کے علاوہ آپ اور پولرڈ اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ پارکر جوڑا کہیں رفوچکر نہ ہوجائے!‘‘
ڈاکٹر نے قدرے سوچ کر جواب دیا: ’’نہیں! وہ برآمدے میں کھڑے رہے تھے، صرف میں اور پولرڈ کمرے میں داخل ہوئے تھے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کیس میں ملوث نہیں ہیں۔‘‘
’’کیا آپ کو اس کا پورا یقین ہے....؟‘‘
’’بالکل۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر نیچے چلا گیا۔
’’میں حیران ہوں کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا! بظاہر گھر میں مقیم تین افراد میں سے ایک نے۔ گھر کی منتظمہ پر مشکل سے شبہہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس کے پاس آٹھ سال سے تھی اور اسی عرصے میں جب بھی وہ چاہتی، اپنے مالک کو ہلاک کرسکتی تھی۔ رہ گئےیہ پارکر، تو مجھے یہ اچھے لوگ معلوم نہیں ہوتے۔‘‘ جیپ نے غیر متوقع طور پر رائے ظاہر کی۔
اس موقع پر ہاؤس کیپرمس کلیگ بھی آگئی۔ وہ ایک دبلی پتلی عورت تھی۔ اس کے بالوں پر سفیدی آچکی تھی اور سیدھی مانگ اس کے چہرے پر خاصی بھلی لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ پرسکوناورسنجیدہتھی۔
جیپ کے سوالات کے جواب میں اس نے بتایا کہ وہ چودہ سال سے متوفی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ مرحوم ایک فیاض اور ہمدرد شخص تھا۔ اس نے مسٹر اور مسز پارکر کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ تین روز پیشتر وہ اچانک یہاں پہنچے تھے۔ ان کے آنے سے مالک مکان خوش نہیں ہوا تھا۔ ٹوٹے ہوئے کف لنک کے بارے میں اس نے بتایا کہ یہ مسٹر پروتھ رو کا نہیں۔ اس بارے میں اسے پکا یقین تھا۔ جب اس سے پستول کے بارے میں پوچھا تھا، تو اس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ مسٹر پروتھ کے پاس اس قسم کا پستول تھا اور وہ اسے بہت حفاظت سے تالے میں بند رکھتا تھا۔‘‘ پستول چلنے  کی آواز کے بارے میں اس نے بتایا: ’’میں نے فائر کی آواز نہیں سنی، مگر یہ بات تعجب خیز نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا مکان ہے۔‘‘ پروتھ  کی عادات اور معمولات کے بارے میں اس نے کہا: ’’میں نہیں کہہ سکتی کہ مسٹر پروتھ رو کس وقت سونے کے لیے لیٹے۔ میں ساڑھے نو بجے کے قریب اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئی، تو اس وقت مسٹر پروتھ رو اپنے بستر پر لیٹے ہوئے نہ تھے۔ ان  کی یہ عادت نہیں تھی کہ وہ رات کو فوراً سونے کے لیے لیٹ جائیں۔ عموماً نصف شب تک بیٹھے مطالعہ کرتے اور سگریٹ پیتے رہتے تھے۔ وہ کثرت سے تمباکونوش کرتے تھے۔‘‘
پائرو نےا س مرحلے پر سوال کیا: ’’آپ کے صاحب  کھڑکی بند کرکے سوتے تھے یا اسے کھلا رہنےدیتے تھے....؟‘‘
مس کلیگ نے قدرے توقف کے بعد جواب دیا: ’’کھڑکی عموماً کھلی رہتی تھی۔ کم از کم اس کا اوپر کا حصہ تو ضرور کھلا رہتا تھا۔‘‘
’’لیکن اس وقت یہ کھڑکی بند ہے۔ کیا آپ یہ وضاحت کرسکتی ہیں....؟‘‘ پائرو نے سوال کیا۔
’’نہیں! ہوسکتا ہے تیز ہوا سے بند ہوگئی ہو!‘‘
جیپ نے اس سے چند اور سوال پوچھے اور پھر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد اس نے مسٹر مسز پارکر سے علیحدہ علیحدہ سوالات کیے۔ 
مسز پارکر ہسٹیریا زدہ نظر آتی تھیں۔ ان کی آنکھیں اشک آلود تھیں.... مسٹر پارکر بپھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے کف لنک کے بارے میں بتایا کہ یہ ان کا نہیں ہے۔ لیکن  اس سے پیشتر چونکہ مسز پارکر تسلیم کر چکی تھیں کہ یہ کف لنک ان کے شوہر کا ہے، لہٰذا یہ انکار کچھ سود مند نہ تھا۔ جیپ نے انہیں شک بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کے نزدیک ان کے خلاف وارنٹ حاصل کرنے کا کافیموادموجودتھا۔
جیپ نے پولرڈ کو نگرانی کے لیے چھوڑا اور جلدی سے قصبے میں پہنچ کر ہیڈ کوارٹرز سے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ قائم کیا۔ میں اور پائرو ٹہلتے ہوئے سرائےinn میں واپس آگئے۔
’’آپ غیر معمولی طور پر خاموش ہیں۔ کیا اس کیس میں آپ کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے....؟‘‘ میں نے پائرو سے سوال کیا۔
’’نہیں.... مجھے اس کیس سے بےحد دلچسپی ہے، لیکن اس میں میرے لیے کچھ الجھن بھی ہے۔‘‘
’’آپ کے نزدیک شاید مقصد قتل غیر واضح ہے....؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پارکر ایک برا آدمی ہے۔ اس کے خلاف کیس خاصا مضبوط ہے۔ بیشک قتل کا مقصد ابھی تک واضح نہیں، مگر یہ بعد میں واضحہوجائے گا۔‘‘
’’آپ کی نظر میں کوئی نمایاں بات نہیں آئی جس کو جیپ نے نظر انداز کردیا ہو....؟‘‘ پائرو نےسوال کیا۔
میں نے اس کی طرف تجسس کی نظر سے دیکھا اور حیران ہو کر سوال کیا: ’’مسٹر پائرو! آپ کی نظر میں کون سا پوشیدہ نکتہ ہے، جس تک جیپ جیسے جہاندیدہ افسر کی نگاہ نہ پہنچ سکی....؟‘‘
’’متوفی کی آستین میں کیا چیز تھی....؟‘‘
’’اوہ! وہ رومال!‘‘ مجھے یاد آیا کہ پائرو نے متوفی کے رومال کو خاص طور پر دیکھا تھا۔
’’بالکل ٹھیک! وہ واقعی ایک رومال تھا، صرف رومال، لیکن میں سمجھتا ہوں وہ اس کے سوا اور کچھ بھی تھا۔‘‘
’’جہاز ران sailorرومال بالعموم آستین ہی میں رکھتے ہیں مسٹر پائرو!‘‘ میں نے متفکر انہ انداز میں کہا۔
’’مثلا....؟‘‘ میں استفسار کیا۔
’’مثلاً، میرا ذہن بار بار سگریٹ کے دھوئیں کی بُو کی طرف منتقل ہوتا ہے۔‘‘
’’لیکن مجھے اس کی کوئی بُو محسوس نہیں ہوئی!‘‘ میں نے تعجب کے انداز میں کہا۔
’’اور میرے دوست، نہ مجھے محسوس ہوئی۔‘‘ پائرو نے تمسخر کے انداز میں کہا۔ ’’بہرحال میں اس کے بارے میں سوچ ضرور رہا ہوں۔‘‘ اس کے چہرے پر غور و فکر کے گہرے تاثرات تھے۔
vvv
ابتدائی عدالتی کارروائی دو روز بعد ہوئی۔ اس عرصے میں کچھ اور شہادت مہیا ہوئی تھی۔ ایک آوارہ گرد  شخص Trampسےنے بیان دیا تھا کہ وہ دیوار پھلانگ کر ’’لے ہاؤس‘‘ کے باغ میں داخل ہوا تھا جہاں وہ اکثر شب باشی کیا کرتا تھا اور اس نے رات کے بارہ بجے کے قریب مکان کی پہلی منزل سے دو آدمیوں کے جھگڑنے کی بلند آوازیں سنی تھیں۔ ایک آدمی رقم کا مطالبہ کر رہا تھا اور دوسرا غصے بھری آواز میں رقم دینے سے انکار کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی مسٹر پروتھ تھے جن کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔
مسٹر پارکر کو اس نے دیکھنے کے بعد شناخت کیا تھا اور بہت تعین سے بتایا تھا کہ دوسرے صاحب یہیتھے۔
اس شہادت کی رو سے یہ بات ایک طرح پایہ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ مسٹر اور مسز پارکر لے ہاؤس میں بلیک میل کرنے کی غرض سے آئے تھے۔
مقدمے کے ریکارڈ پر یہ بات بھی آئی کہ متوفی کا اصل نام وینڈوور Wendover تھا اور کافی عرصہ پہلے وہ بحریہ میں لیفٹیننٹ تھا۔ 1910ء میں ’’میری تھوٹ‘‘ Merrythought نامی کروزر  جہاز  کو تباہ کرنے میں اس نے عملی طور پر حصہ لیا تھا اور اپنے اس جرم کو چھپانے کے لیے نام بدل کر رہ رہا تھا۔ یہ سمجھا گیا کہ پارکر، وینڈوور کے اس جرم سے آگاہ تھا اور اس کے پاس اس غرض سے آیا تھا تا کہ اپنی خاموشی کی قیمت وصول کرے۔ جھگڑے کے دوران میں وینڈوور نے اپنا پستول نکالا۔ لیکن پارکر نے یہ پستول اس سے چھین کر اسے ہلاک کردیا اور بعد میں اس بات کی کوشش کی کہ اس واقعے کو خودکشی تصور کیا جائے۔
عدالت کی یہ کارروائی سننے کے بعد ہم اپنی رہائش گاہ پر آئے، تو پائرو نے رقعہ بھیج کر مقتول کی خادمہ مس کلیگ کو بلوایا۔ وہ آئی تو میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ معمول کے خلاف پرسکون نہ تھی۔ وہ زور زور سے سانس لے رہی تھی گویا دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی ہے۔ جب اس نے پائرو کی طرف دیکھا، تو اس کی آنکھوں میں خوف کے آثار تھے۔
میڈم بیٹھ جائیے!‘‘ پائرو نے نرمی سے کہا۔ ’’میرا اندازہ درست تھا۔ کیا ایسا نہ تھا....؟‘‘
جواب میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’آپ نے ایسا کیوں کیا....؟‘‘ پائرو نے ملائمت سے کہا۔
’’میں اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا، تو میں اس کی نرس تھی۔ خدا کے لیے مجھ پر رحم کریں۔‘‘
’’مجھ سے جو کچھ بھی ممکن ہوسکا میں کروں گا، لیکن آپ جانتی ہیں کہ میں یہ نہیں کرسکتا کہ ایک بےقصور آدمی کو پھانسی پاتے ہوئے دیکھوں، اگرچہ وہ ایک غنڈہ ہی ہو!‘‘
اس نے مدہم آواز میں کہا: ’’شاید میں بھی ایسا نہیں چاہتی۔ بہرحال جو کچھ مناسب ہو وہ کریں۔‘‘ پھر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
’’کیا اس نے قتل کا ارتکاب کیا ہے....؟‘‘ میں نے حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
پائرو نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا: ’’بلکہ آنجہانی والٹر پروتھ رو  نے خود ہی اپنے آپ کو ہلاک کیا ہے۔ کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اس نے رومال دائیں ہاتھ کی آستین میں رکھا ہوا تھا۔ اس بات سے میں سمجھ گیا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھا۔ مسٹر پارکر سے سخت جھگڑا کرنے کے بعد اسے یقین ہوگیا تھا کہ اس کے جرم کا راز فاش ہوجائے گا.... اس لیے اس نے خودکشی کرلی۔ 
صبح کو حسب معمول مس کلیگ کمرے  میں آئی، تو اس نے کمرے میں اس کو مردہ حالت میں دیکھا اور جیسا کہ اس نے ابھی بیان کیا، وہ متوفی کو بچپن سے چاہتی تھی، لہٰذا یہ دیکھ کر اسے پارکر جوڑے پر سخت غصہ آیا جو اس شرمناک سانحے کا باعث بنا تھا۔ وہ ان کو قاتل سمجھتی تھی اور پھر اس کو یکبارگی اس سے انتقام لیے کا خیال آیا، چنانچہ اس نے کھڑکی بند کرکے چٹخنی لگا دی اور ٹوٹا ہوا کفلنک جو اسے نیچے کسی کمرے سے ملا تھا وہاں ڈال دیا اور کمرے سے باہر آکر اس نے کمرہ مقفل کردیا۔‘‘
’’لیکن تم نے یہ ساری باتیں کس طرح معلوم کرلیں....؟‘‘ میں نے حیران ہو کر سوال کیا۔
’’یہ تو کوئی الجھا ہوا معاملہ نہ تھا، اگر کھڑکی بند  رہی ہوتی اور اتنی تعداد میں سگریٹ پیے جاتے جتنے سگریٹوں کے ٹکڑے کمرے میں ملے ہیں، تو کمرے میں تمباکو کی بُو ہوتی، لیکن کمرے کی فضا بالکل پاک تھی۔ اس سے مجھے فوراً یہ اندازہ ہوگیا کہ کمرے کی کھڑکی رات بھر کھلی رہی تھی۔ اسے صبح کے وقت  بند کیا گیا، چنانچہ مس کلیگ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کھڑکی اس نے بند کی تھی اور اس کا مقصد خودکشی کے اس کیس کو قتل کی واردات ثابت کرنا تھا۔
پائرو کے اس تجزیے کو عدالت نے بھی تسلیم کیا اور خودکشی کا کیس قرار دے کر ملزموں کوبری کردیا۔




ہرکوئل پائرو


 ہرکوئل پائروHercule Poirot (ہرکیول پیروٹ) ،  اگاتھا کرسٹی  کا لکھا با کمال اور معروف ترین فکشن کردار تھا ، بیلجئم سے تعلق رکھنے والا ایک  پرائیویٹ جاسوس  جو  شرلاک ہومز  جرائم کی پُراسرار وارداتیں نہایت ذہانت  سے حل کرنے میں ماہر تھا۔  پائرو کو منفرد تاؤ دی ہوئی اونچی مونچھوں ، گنجے سر،  بھرپور  اعتماد اور مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ پائرو اپنے منفرد انداز میں پہلے  تمام کرداروں پر پہلے شک کرتا ہے اور آخر میں کسی ایک کو مجرم ثابت کر دیتا ہے ۔ ہرکوئل پائرو  کے کارناموں میں مرڈر آن دی اورینٹ ایکسپریسThe Murder on the Orient Express، ڈیتھ آن نیل Death onthe Nile  ، مرڈر آف راجر ایکروئڈ The Murder of Roger Ackroyd، پرل ایٹ اینڈ ہاؤس Peril at End House  اور اینڈ  دھین دئیر ور نون  And Then There Were None مقبول ہیں۔  یہ کردار پچپن سال تک اگاتھا کرسٹی  ناولوں کی زینت بنتا رہا اور تینتیس ناولوں کا مرکزی کردار رہا۔    حیرت انگیز بات ہے کہ جب ایک ناول Curtain میں اس کردار کا خاتمہ ہوا تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر تعزیتی مضمون چھپا ۔  دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا فکشن کردار  ہوگا جس کی موت پر نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر اخبار نے تعزیتی کالم چھاپا ہو۔ 



[مارکیٹ بیسنگ مسٹری ،  مشمولہ:  کہانیوں کے مجموعہPoirot’s EarlyCases  ]


 جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ

آگاتھا کرسٹی  ۔1890ء تا 1976ء

 جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ،  آگاتھا کرسٹی  Agatha Christie کا پورا نام اگاتھا میری کلیریسا ملر تھا ، آگاتھا 1890ء میں انگلینڈ کے علاقے ٹارکی Torquay میں پیدا ہوئیں،  اور1976ء میں آکسفورڈ شائر، انگلینڈ میں وفات ہائی۔  انہیں جاسوسی کہانیاں لکھنے والی تاریخ کی عظیم ترین مصنفہ کہا جاتا ہے، اس بات کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  گنیز بک آف ریکارڈ کے مطابق دنیابھر میں شیکسپئیر کے بعد یہ واحد مصنفہ ہیں جن کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئی ہیں۔   2006ء کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے ایک ارب سے زائد نسخے فروخت ہوئے تھے ۔   انہوں نے کل 66 جاسوسی ناولزاور 153مختصر کہانیوں کے 14 مجموعے لکھے جو اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔   یوں تو آگاتھا کرسٹی  جرائم  اور   سراغ رساں پر مبنی جاسوسی کہانیوں کے لئے جانی جاتی ہیں، لیکن آپ نے  میری ویسٹماکوٹ کے قلمی نام سے رومانوی ناول بھی لکھے اور کئی  پراسرار ، سنسنی خیز اور ماورائی کہانیاں  بھی تحریر کیں ۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں