انگریزی ادب  سے آگاتھا کرسٹی کی ایک شاہکار کہانی

پُراسرار چوری 

‘‘پُراسرارچوری’’ دراصل آگاتھا کرسٹی  کے ناول  The Million Dollar Bond Robbery کا ترجمہ ہے جو  1968ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ کہانی  مشہور جاسوس ہرکوئل پائرو  کے کارناموں میں سے ایک ہے ۔   اس ناول کو 1991ء میں برطانوی ٹیلیویژن    iTV  پر ڈرامے کے قالب میں بھی  ڈھالا گیا۔     جسے آپ درج ذیل لنک پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ 


http://www.dailymotion.com/video/xpha3z
https://www.youtube.com/watch?v=oZbnjNea7Ho


حیرت اور تجسس پیدا کرنے والی ایک پُراسرار کہانی....





موسم بہار کی ایک خوشگوار صبح میں  نے اخبار کی سرخیاں دیکھتے ہوئے اپنے سراغ رساں دوست ہرکوئل پائروHercule Poirotسے کہا:
’’یار، میرا خیال ہے ہمیں اپنا موجودہ پیشہ چھوڑ کر ڈاکہ زنی شروع کردینی چاہیے۔ چوروں نے آج کل کچھ ایسے طریقے ایجاد کرلیے ہیں کہ پولیس ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اب اسی خبر کو دیکھو، لکھتا ہے کہ لندن اسکاٹش بینک نے اولمپیا Olympiaجہاز پر دس ہزار ڈالر کے لبرٹی بانڈ Liberty Bonds نیویارک بھیجے، لیکن اس سے پہلے کہ جہاز منزل مقصود پہنچے، بانڈ یوں غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔‘‘
پائرو ہنستے ہوئے بولا:
’’اچھا، تو تمہارا خیال ہے کہ پولیس اس جرم کا سراغ نہیںلگاسکتی....؟‘‘
’’بھئی تم ہی سوچو، ان حالات میں پولیس بےچاری کیا کرے۔ اسے نجوم کا علم تو ہے نہیں، آخر محروموں کا پتہ چلانے کے لیے تھوڑا بہت سراغ ملنا ضروری ہے۔‘‘
’’مصیبت یہ ہے کہ بحری سفر میں میرا جی متلانے لگتا ہے، اور نہ میں بآسانی یہ معمہ حلکرسکتاتھا۔‘‘
میں جواب دینے ہی والا تھا کہ دروازے پر گھنٹی بجی اور مالکہ مکان کی زبانی معلوم ہوا کہ ایک عورت جس کا نام ایسمی فرکور Esmee Farquhar ہے، ملاقات کی خواہشمند ہے۔  پائرہ  نے اسے اندر بھیجنے کااشارہ کیا۔
ملاقاتی عورت کی عمر پچیس برس سے زیادہ نہ تھی، قیمتی لباس، خوبصورت چہرہ۔ گفتگو اور حرکات سے نفاست ظاہر ہوتی تھی۔ پائرہ نے اسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے میرا تعارف کرایا:
’’یہ میرے دوست کیپٹن ہیسٹنگز Captain Hastings ہیں۔ ان کی موجودگی میں آپ بلاتکلف گفتگو کرسکتی ہیں۔ یہ ایک عرصے سے میرے شریک کار ہیں۔‘‘
’’شکریہ جناب۔‘‘ ایسمی فرکور نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر ذرا سنبھل کر بولی:’’موسیو پائرو،  Monsieur Poirot میں آپ سے ایک ضروری معاملے میں مدد کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ آپ نے آج کا اخبار پڑھا ہوگا اور اس میں دس ہزار ڈالر کے بانڈ چرائے جانے کی خبر بھی نظر سے گزریہوگی....؟‘‘
’’جی، جی ہاں، لیکن آپ....‘‘
’’میں سمجھ گئی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ میرا اس کیس سے براہ راست تعلق نہیں ہے، البتہ مسٹر فلپ رجوائے Philip Ridgeway میرے منگیترہیں۔‘‘
’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ فلپ رجوئے کونصاحب ہیں....؟‘‘
’’لبرٹی بانڈ ، مسٹر فلپ کی نگرانی میں تھے اور وہ انہیں لے کر نیو یارک جارہے تھے۔ ان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، وہ ہیں بھی معصوم اور بےقصور، لیکن وہ خود کو ایک طرح سے ان نقصان کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور بہت پریشان ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کی طبیعت ضرورت سے زیادہ حساس ہے۔
علاوہ ازیں انہیں اپنے چچا سے بھی ڈر لگتا ہے جو بہت خفا ہیں۔ چچا کا خیال ہے کہ فلپ نے بے احتیاطی سے کام لیا ہے، اس نے یقیناً کسی کلب یا ہوٹل میں اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر شیخی بگھاری ہوگی کہ میں دس ہزار ڈالر کے بانڈ لے کر نیو یارک جارہا ہوں۔ بات پھیل گئی اور چالاک مجرموں کے کسی گروہ نے اس پیشگی اطلاع سے فائدہ اٹھا لیا۔‘‘
’’مسٹر فلپ کے چچا کیا کرتے ہیں....؟‘‘
’’آپ مسٹر جانسن  ویواسر Vavasour کو نہیں جانتے، لندن اینڈ اسکاٹش بینک  کے جنرل مینجر ہیں۔‘‘
’’محترمہ، کیا آپ تفصیل سے واقعہ مجھے سناسکتیہیں....؟‘‘
’’شاید آپ جانتے ہوں کہ لندن اینڈ اسکاٹش بینک کی ایک شاخ امریکہ میں کھلنے والی تھی۔ اس مقصد کے لیے ابتدائی سرمائے کے طور پر دس ہزار ڈالر کے لبرٹی بانڈ نیو یارک بھیجنے کا منصوربہ تیار ہوا۔ جنرل مینجر جانسن نے اس کام کے لیے اپنے بھتیجے فلپ رجوائےے کو منتخب کیا۔ 
فلپ خود اس بینک میں ایک بڑے عہدے پر کام کر رہا ہے، وہ اولمپیا جہاز پر سوار تھا جو گزشتہ ماہ 23 تاریخ کو لیور پول Liverpoolکی بندرگاہ سے روانہ ہوا۔ بانڈ اس صبح بینک کے دوسرے جنرل مینجر مسٹر جانسن کی موجودگی میں اسے دیے گئے۔ اس نے سربمہر لفافہ جس میں بانڈ تھے، فوراً ہی اپنے ٹرنک میں رکھا اور اسے مقفل کردیا۔‘‘
’’کیا ٹرنک میں جوتا لا استعمال کیا گیا، بازار سے خریدا گیا تھا....؟‘‘ پائرو نے سوال کیا۔
’’جی نہیں، اسکاٹش بینک نے یہ تالا خاص طور پر اپنی نگرانی میں بنوایا تھا۔ جیسا کہ میں بیان کر رہی تھی، فلپ نے بانڈ نہایت احتیاط سے دونوں جنرل مینجروں کے سامنے ٹرنک میں مقفل کیے اور جہاز پر سوار ہوگیا، لیکن جہاز کے نیو یارک پہنچنے سے چند گھنٹے پیشتر یہ لفافہ چرا لیا گیا۔ جہاز پر موجود سب مسافروں کی تلاشی لی گئی، مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
’’لیکن بانڈ کہاں اور کیسے غائب ہوگئے....؟‘‘ پائرو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’اخبار میں لکھا ہے کہ مصدقہ اطلاع کے مطابق جہاز کے نیو یارک پہنچنے کے نصف گھنٹہ بعد بازار میں مختلف مقامات پر یہ بانڈ تھوڑی تھوڑی مقدار میں فروخت ہوتےدیکھےگئے۔‘‘
’’یہ صحیح ہے، لیکن پولیس کوشش کے باوجود پتہ نہ چلا سکی کہ بانڈ فروخت کرنے والے کون لوگ تھے۔ غالباً انہوں نے خطرہ محسوس کر لیا تھا اور کہیں غائب ہوگئے۔‘‘
’’مس ایسمی، آپ کا بہت بہت شکریہ، میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ آپ کے منگیتر کی مشکل آسان کرسکوں۔ کیا میں ان سے مل سکتا ہوں....؟‘‘
’’ضرور ملیے، آج دوپہر کا کھانا ہم چیشائر Cheshire ریستوران میں کھائیں گے، آپ بھی وہاں آجائیں، تو مجھے خوشی ہوگی۔ 
’’آپ مطمئن رہیے۔  سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ پائرہ نے جواب دیا۔ ایسمی کوفر رخصت ہوگئی۔
دوپہر کے وقت ہم ریستوران پہنچے، تو مسٹر فلپ اور ایسمی پہلے سے وہاں موجود تھے۔ ایسمی نے ہمارا تعارف کرایا اور صبح کی ملاقات کا ذکر کیا۔ فلپ نے بڑی گرمجوشی سے پائرو کا ہاتھ دبایا اور بیرے کو آرڈر دیتے ہوئے بولا:
’’موسیو پائرو، میں نہیں جانتا آپ میری کیا مدد کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے نے مجھے بہت پریشان کیا ہے۔ یقین مانیے کہ مجھے کئی راتوں سے نیند نہیں آئی۔‘‘
’’آپ فکر نہ کریں، ہم اپنی طرف سے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی پوری کوشش کریں گے، مگر  بہتر ہوگا کہ ہم کھانے کے بعد اطمینان سے باتیں کریں۔ میں چاہتا ہوں آپ اپنی زبان سے مجھے پورا واقعہ سنائیں۔‘‘
’’بہت بہتر جناب۔‘‘ فلپ بولا اور ہم دوسرے موضوعات پر گفتگو کرنے لگے۔
کھانے سے فارغ ہو کر فلپ نے اپنی داستان بیان کی۔ تقریباً وہی باتیں تھیں جو ہم ایسمی فرکور کی زبانی سن چکے تھے۔
جب وہ اپنی بات ختم کر چکا، تو پائرو نے سوالکیا:
’’آپ کو سب سے پہلے اس چوری کا علمکیسےہوا....؟‘‘
’’اس وقت جب میں نے ٹرنک دیکھا جو کیبن سے باہر پڑا تھا،  حالانکہ میں نے اسے بہت سنبھال کر کیبن میں رکھا تھا۔ ٹرنک کے قُفل پر اس طرح کے نشان تھے جیسے کسی نے اسے لوہے کی سلاخ یا اوزار سے کھولنے کی کوشش کی ہو۔‘‘
’’کیا قُفل ٹوٹ چکا تھا....؟‘‘
’’قفل ٹوٹا نہیں تھا، لیکن اس پر جو نشان تھے، ان سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ شروع میں چور نے کسی اوزار سے کھولنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ بعد میں شاید اسے ٹرنک کھولنے کا کوئی اور ذریعہ ہاتھآگیا۔‘‘
پائرو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا وہ کسی نتیجے پر پہنچ گیا ہے۔ اس نے نوجوان کو گھورتےہوئے کہا:
’’بہت خوب، آپ کے کہنے کامطلب یہ ہے کہ چور نہایت احمق واقع ہوا تھا، اس نے اپنے وقت کا خاصا بڑا حصہ ایک ایسے کام پر ضائع کیا جس کا کوئی فائدہ نہ تھا اور پھر اچانک اسے خیال آیا کہ چابی تو اس کے پاس ہے قفل توڑنے سے کیا فائدہ....؟ نہیں صاحب میں یہ بات تسلیم نہیں کرسکتا۔‘‘
’’لیکن موسیو پائرو، چابی اس کے پاس کہاں سے آئی....؟ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ چابی میرے پاس تھی اور میں نے ایک لمحے کے لیے بھی اسے اپنے سے الگ نہیں کیا۔قفل اس قسم کا تھا کہ اس میں کوئی دوسری چابی نہ لگ سکتی تھی۔‘‘
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ دنیا میں اس قفل کی صرف ایک ہی چابی ہے....؟‘‘
’’قفل کی باقی دو چابیاں مسٹر جانسن اور مسٹر شا Shawکے پاس تھیں۔ اس بات کی تُک واقعی سمجھ میں نہیں آتی کہ جب چور کے پاس کوئی ایسی چابی تھی جس سے اس نے بعد میں قففل کھولا، تو پہلے قفل پر زور آزمائی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
’’مسٹر فلپ آپ صحیح خطوظ پر سوچ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ ایک مرتبہ پھر سوچ لیجیے، کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ آپ نے ٹرنک کھلا چھوڑ دیا ہو یا سوتے وقت چابی کہیں رکھ دی ہو۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘
’’بانڈ ٹرنک میں سے چوری کیے گئے، لیکن انہیں چرانے کےبعد چور کا اگلا قدم کیا تھا۔ آپ نے بتایا ہے کہ جہاز کے سب مسافروں کی تلاشی لی گئی تھی۔ اس صورت میں چور نے بانڈ کہاں چھپائے  اور وہ انہیں لے کر جہاز سے اترنے میں کیسے کامیابہوا....؟‘‘
فلپ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر ہونٹ کاٹتے ہوئے بولا: ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ  چور کہاں غائب ہوگیا....؟  میں نے نیو یارک پہنچنے پر سب سے پہلے کسٹم کے حکام کو خبر دی تھی۔ انہوں نے خاص طور پر ہر مسافر کی دوبارہ تلاشی لی۔ وہاں کی پولیس نے بھی جہاز کا کونہ کونہ چھان مارا، لیکن بانڈ ملے نہ ان کا  کوئی  نشان۔‘‘
’’مسٹر فلپ، بانڈ یقیناً کسی لفافے یا پیکٹ میںہوں گے....؟‘‘
’’جی ہاں، ایک پیکٹ میں تھے۔‘‘
’’کیا یہ پیکٹ، جوتے، قمیض کے کالر یا بیگ کی تہہ میں چھپایا جا سکتا تھا....؟‘‘
’’جی نہیں، پیکٹ خاصا بڑا تھا۔‘‘
’’اور یہ بانڈ جہاز کے بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے نصف گھنٹہ بعد بازار میں فروخت ہونےلگے....؟‘‘
’’جی ہاں، یہ بات واقعی حیران کن ہے۔ ایک دلال نے تو حلفیہ بیان دیا کہ اس نے جہاز کی آمد سے پہلے بھی چند بانڈ فروخت ہوتے دیکھے۔‘‘
’’کیا یہ ممکن ہے کہ جہاز کے لنگر انداز ہونے سے پہلے کچھ مسافر کشتی کے ذریعے ساحل تک پہنچگئے ہوں....؟‘‘
’’کچھ لوگ ایک کشتی میں بیٹھ کر ساحل کی طرف گئے ضرور تھے، لیکن ان کی اکثریت جہاز کے حکام اور پولیس افسروں پر مشتمل تھی۔ ساحل پر ان کی بھی تلاشی لی گئی.... 
موسیو پائرو، یہ حادثہ میرے لیے بڑا تکلیف دہ ہے۔  لوگ مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ میری پوزیشن بہت نازک ہے، خدا کے لیے کچھ کیجیے۔‘‘
’’کیا پولیس نے آپ کی تلاشی نہیں لی....؟‘‘
’’میں نے خود اصرار کرکے پولیس کو تلاشی دی تھی، اس کے باوجود لوگوں کو شک ہے کہ اس چوری میں میرا ہاتھ ہے۔‘‘
’’مسٹر فلپ، بہت بہت شکریہ، اب ہمیں اجازت دیجیے، ہم بینک جاکر آپ کے چچا سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ پائرو نے کہا۔
فلپ نے جیب سے ایک کارڈ نکال کر اس پر کچھ لکھا اور پائرو کو دیتے ہوئے بولا:
’’آپ یہ کارڈ چچا کو دیں گے، تو وہ فوراً آپ کو ملوا لیں گے، میری ضرورت پڑے، تو حاضر ہوں۔ جس وقت حکم دیں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
لندن انڈ اسکاٹش بینک پہنچ کر ہم نے جنرل مینجر کے کمرے میں فلپ کا دیا ہوا کارڈ بھجوایا۔ اگلے ہی لمحے اندر آنے کی اجازت مل گئی۔ دونوں جنرل مینجر موجود تھے۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے ہمیں خوشآمدید کہا۔  وہ خاصے عمر رسیدہ تھے، مسٹر جانسن کی ڈاڑھی بھی تھی۔ وہ بولے:
’’معلوم ہوتا ہے، آپ کی تحقیق خالص ذاتی نوعیت کی ہے، کیونکہ جہاں تک اس چوری کا تعلق ہے، ہم یہ کیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کے مشہور سراغ رساں انسپکٹر میک نیل McNeilکے حوالے کر چکے ہیں۔ بہر کیف آپ کو فلپ نے بھیجا ہے، اس لیے تشریف رکھیے اور جو کچھ پوچھنا چاہتے ہیں، پوچھیے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ جناب۔‘‘ پائرو نے کہا۔ 
’’سب سے پہلے میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس ٹرنک کے لیے خاص قسم کے قفل کا آرڈر کس نے دیا تھا....؟‘‘
’’یہ کام میں نے خود کیا تھا، دراصل کام اتنا اہم تھا کہ میں نے کسی ملازم پر چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔‘‘ مسٹر شا بولے۔
’’قفل کی کل کتنی چابیاں بنوائیں گئیں....؟‘‘
’’تین.... ایک فلپ کو دی گئی تھی، دوسری مسٹر جانسن کے پاس تھی، تیسری میرے پاس۔‘‘
’’کیا بینک کے کسی ملازم کو معلوم تھا کہ آخری دو چابیاں کس جگہ رکھی ہیں....؟‘‘
’’جی نہیں، یہ دونوں چابیاں ہمارے سیف میں تھیں۔ اتفاق سے مسٹر شا دو ہفتے قبل، غالباً اسی روز جب فلپ جہاز پر سوار ہوا، بیمار پڑ گئے تھے۔ ابھی چار دن ہوئے صحت یاب ہو کر آئے ہیں۔‘‘
’’گویا جب بانڈ چوری ہوئے، تو دونوں چابیاں آپ کے پاس تھیں....؟‘‘
’’جی ہاں، مجھے یقین ہے چابیاں سیف میں تھیں اور ابھی تک وہیں رکھی ہیں۔‘‘
’’کیا آپ ہر روز یہ چابیاں اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس دوران میں کوئی ایک چابی غائب ہو گئی ہو۔‘‘
‘میں نے ہر روز انہیں دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، مجھے یقین ہے چابیاں ابھی تک محفوظ ہیں۔ جس سیف میں چابیاں رکھی تھیں، اس کی چابی میرے یا مسٹر شا کے سوا کسی کے پاس نہیں۔‘‘
مسٹر جانسن نے بات ختم کی، تو مسٹر شا بولے:
’’افسوس تو اس بات کا ہے کہ انہی دنوں میری طبیعت خراب ہوگئی۔ مجھے دمے کی  بیماری ہے، اچانک دورہ پڑا اور چھ سات روز بستر سے نہ اٹھ سکا۔ میری غیر موجودگی میں مسٹر جانسن نے بڑی خوش اسلوبی سے سارا کام سنبھالا، لیکن یہ بانڈ نہ جانے کہاںچلے گئے....؟‘‘
پائرو نے چند سوال اور کیے جن سے اندازہ ہوا کہ وہ مسٹر جانسن اور اس کے بھتیجے کے مابین تعلقات کا جائزہ لے رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ فلپ نہایت ایماندار نوجوان ہے اور بینک کے قابل اعتماد افسروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے کسی طرح کی مالی پریشانی نہیں.... وہ اس واقعے سے قبل کئی بار ایسی ہی بڑی بڑی رقمیں لے کر سفر کرتا رہا ہے۔ آخر میں پائرو نےد ونوں مینجروں کا شکریہ ادا کیا اور ہم باہر آگئے۔
پائرو بجھ سا گیا تھا۔ میں نے پوچھا:
’’کیا جوابات سے مطمئن نہیں ہو....؟‘‘
’’تم غلط سمجھے، قصور جنرل مینجر کا نہیں، میرا ہے جو ایسے کیس ہاتھ میں لینے پر رضا مند ہوجاتا ہوں۔ بھائی....! میں اس کیس سے بڑا مایوس ہوا۔‘‘
’’آخر بات کیا ہے....؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’میں سمجھا تھا واقعی مشکل کیس ہے اور شاید نیو یارک جانا پڑے، لیکن یہ تو بہت ہی معمولی قصہ ہے۔ چور واقعی، احمق ہے، غالباً اس نے زندگی میں پہلی بار یہ حرکت کی ہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو....؟ میں تو ابھی تک سمجھ  نہیں سکا کہ مجرم کون ہے، تم جانتے ہو بانڈ کس نے چرائےہیں....؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کون ہے وہ....؟‘‘
’’اتنی بےصبری اچھی نہیں۔ میں اولمپیا جہاز کی واپسی کا انتظار کر رہا ہوں۔  جونہی اولمپیا ساحل سے آکر لگے گا، میں چور کو پولیس کے حوالے کردوں گا۔ میں نے کمپنی سے پتہ کیا ہے، اولمپیا منگل کی صبح لیورپول پہنچ جائے گا۔‘‘
’’لیکن تم مجرم کو گرفتار کیوں نہیں کرواتے....؟‘‘
’’میرے دوست، قدرت نے ہر شخص کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا۔ مثال کے طور پر انسپکٹر میک نیل اس وقت تک میری بات پر اعتبار نہیں کرے گا جب تک میں ٹھوس ثبوت نہ پیش کردوں۔‘‘
میں نے بڑی کوشش کی، مگر پائرو نے مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا اور گفتگو کا رخ بدل دیا۔
منگل کی صبح، ہم فرسٹ کلاس کے ڈبے میں بیٹے لیورپول کی طرف جا رہے تے۔ بندرگاہ کے احاطے میں پہنچ کر پائرو نے اولمپیا کے خلاصیوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان سے پوچھ گچھ کرنے لگا۔
ہر خلاصی سے اس نے ایک سوال کیا:
’’کیا تم نے جہاز پر کوئی ایسا ناتواں اور کمزور مسافر دیکھا جو گہرے شیشوں کی عینک لگاتا ہو اور سفر کے دوران میں زیادہ تر اپنی کیبن میں رہا ہو۔‘‘
کوئی شخص تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ پائرو نے اپنی کوشش جاری رکھی اور آخر ایک خلاصی سے ہمیں اس شخص کا سراغ مل گیا۔ اس کا نام مسٹر وینٹر Ventnorتھا اور وہ جہاز کے کیبن نمبر 24 میںمقیمتھا۔
اتفاق سے یہ کیبن مسٹر فلپ کے کیبن سے متصل تھی۔ میں حیران تھا کہ پائرو نے اس مسٹر وینٹر کو کہاں سے تلاش کرلیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے وینٹر کا حلیہ کیسے معلوم ہوا جب کہ زندگی میں کبھی اسے نہ دیکھا تھا۔ میں نے سوچا وہی شخص مجرم ہوگا۔ اس دریافت نے طبیعت میں جوش پیدا کردیا۔ ایک خلاصی سے پوچھا:
’’کیا مسٹر وینٹر سب سے پہلے جہاز سے اترےتھے....؟‘‘
’’جی نہیں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے سب سے آخر میں جہاز چھوڑا۔‘‘
میں نے مڑ کر پائرو کی طرف دیکھا اور ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا:
’’یہ کوشش بےکار  ثابت ہوئی۔  اگر وینٹر ہی وہ شخص ہے جس کی تلاش میں ہم یہاں آئے ہیں، تو اسے سب سے پہلے جہاز سے اتر کر ساحل پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔‘‘
پائرو ہنستے ہوئے بولا: ’’ہیسٹنگز، تم بہت بھولے ہو، ہمیشہ غلط خطوط پر سوچتے ہو۔ خلاصی کے آخری جواب سے پتہ چلا گیا ہے کہ میرے خدشات سو فیصد درست ثابت ہوئے۔‘‘
’’وہ کیسے....؟‘‘
’’یہ میں لندن چل کر بتاؤں گا۔‘‘
لیور پول سے واپس لندن آکر پائرو نے کاغذ کے ایک پرزے پر چند سطریں لکھیں اور اسے ایک لفافے میں بند کرتے ہوئے بولا:
’’ہم پہلے اسکاٹ لینڈ یارڈ چلیں گے اور یہ لفافہ اپنے ذہین اور قابل دوست انسپکٹر میک نیل کے لیے چھوڑ جائیں گے۔ اس کے بعد ہم ریستوران چیشائر میں جائیں گے، ایسمی فرکور وہاں ہماری منتظر ہوگی۔‘‘
’’کیا مسٹر فلپ بھی وہاں ہوں گے یا....؟‘‘
’’میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتے ہو، شروع میں تمہاری طرح میں بھی یہی سمجھا تھا کہ فلپ رجوائے مجرم ہے، لیکن جلد ہی پتہ چلا گیا کہ وہ بےگناہ ہے۔‘‘
’’پھر مجرم کون ہے....؟‘‘
’’ابھی سب معلوم ہوجائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر پائرو مزے سے سگریٹ پینے لگا۔
حسب توقع مسٹر میک نیل اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر میں نہ مل سکے۔ غالباً وہ اسی کیس پر تحقیقات کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے۔ ہم نے لفافہ ان کی میز پر چھوڑا اور ٹرین کے ذریعے چیشائر ریستوران کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں پائرو بولا:
’’اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چوری کس طرح اور کب ہوئی۔ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ بانڈ مقفل ٹرنک میں سے اڑائے گئے اور پھر ہوا میں تحلیل ہوگئے، کیونکہ جہاز میں سب مسافروں کی تلاشی لینے کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکا، لیکن ہوا میں تحلیل ہونے والی بات اس سائینٹیفک دور میں قبول نہیں کی جاسکتی، لہٰذا دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں:
’’اول یہ کہ بانڈ جہاز میں کسی جگہ چھپا دیے گئے، دوئم یہ کہ انہیں سمندر میں پھینک دیا گیا۔
’’میں سمجھ گیا، تمہارا مطلب ہے چور نے بانڈ موم جامے میں لپیٹے اور کسی کارک کے ساتھ باندھ کر سمندر میں پھینک دیے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’نہیں، اگر بانڈ سمندر میں پھینک دیے جاتے،  تو اولمپیا کے پہنچتے ہی انہیں نیو یارک میں کیونکر فروخت کیا جاسکتا تھا۔‘‘
’’آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو....؟‘‘
‘میرے دوست، جہاز کے نیو یارک پہنچنے کے نصف گھنٹہ بعد بانڈ فروخت ہونے لگے اور ہم یہ تسلیم کر چکےہیں کہ بانڈ سمندر میں نہیں پھینکے گئے اور نہ کسی مسافر کے پاس تھے، کیونکہ ہر مسافر کی دو بار تلاشی لی گئی۔ اس کا مطلب یہ کہ بانڈ سرے سے اس ٹرنک میں تھے ہی نہیں۔‘‘
’’وہ کیسے....؟‘‘
’’آخر فلپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ٹرنک  میں بانڈ تھے۔ اسے سربمہر پیکٹ ملا تھا اور اس نے کھولے بغیر پیکٹ ٹرنک میں رکھ لیا۔ ہوسکتا ہے پیکٹ خالی ہو یا اس میں سادہ کاغذ بھرے ہوں۔ اب اس بات پر غور کرو کہ بانڈ نیویارک کسی طرح پہنچے، کیونکہ اگر وہ اولمپیا جہاز پر نہ تھے، تو کسی اور ذریعے سے نیو یارک پہنچے ہوں گے۔
میں نے جہاز راں کمپنیوں سے معلومات حاصل کی ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ جس روز اولمپیا جہاز لیور پول سے نیویارک کے لیے روانہ ہوا، اسی روز ایک دوسرے جہاز ’’جائی جنٹک‘‘ Giganticنے بھی نیو یارک جانے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔جائی جنٹک تیز رفتار جہار ہے، وہ اولمپیا سے اک دن پہلے نیویارک پہنچ گیا، چنانچہ ہمارے پاس اس بات کا یقین کرنے کی خاصی وجوہ موجود ہیں کہ بانڈ دراصل جائی جنٹک جہاز کے ذریعے نیویارک پہنچے۔‘‘
’’بہت خوب، پھر کیا ہوا؟‘‘میں نے استفسار کیا۔
’’ہر بات واضح ہے، واقعات میرے نظریے کی تائید کر رہے ہیں، سر بمہر پیکٹ محض ایک فریب تھا۔ بانڈ بینک کے دفتر ہی میں غائب کر دیے گئے تھے اور تم بخوبی سمجھ سکتے ہو کہ دونوں مینجر یعنی مسٹر جانسن اور مسٹر شا بآسانی یہ کام انجام دے سکتے تھے، لیکن قیاس یہ بتاتا ہے کہ ان میں سے ایک نے بانڈ چرائے اور جائی جنٹک جہاز کے ذریعے نیو یارک بھیج دیے۔ وہاں کسی خاص دلال کو یہ ہدایت کر دی گئی کہ جونہی اولمپیا جہاز ساحل پر پہنچے، بانڈ مارکیٹ میں فروخت کردئے جائیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس دلال نے بےاحتیاطی سے کام لیا اور اولمپیا کی آمد سے پہلے ہی بانڈ فروخت کرے لگا۔ بہرکیف ڈراما مکمل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک شخص اولمپیا جہاز پر چوری کی مصنوعی واردات کرے۔‘‘
’’وہ کیوں....؟‘‘
’’اس لیے کہ اگر یہ واردات نہ کی جاتی تو فلپ نیویارک پہنچ کر بانڈ والا پیکٹ کھولتا اور اسے پتہ چل جاتا کہ پیکٹ خالی ہے۔ اس صورت میں وہ یقیناً دو شخصوں کو مجرم سمجھتا جنہوں نے اسے سر بہمر پیکٹ دیا تھا۔ ظاہر ہے چور، جو ظاہری زندگی میں یقیناً شریف اور معزز ہے، یہ پسند نہ کرتا تھا کہ اس پر شبہہ کیا جائے، چنانچہ کیبن نمبر 24 کے اس پراسرار مرد مسٹر وینٹر نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ ٹرنک کی چابی اس کے پاس تھی۔ اس نے موقع ملتے ہی ٹرنک کھولا اور وہ پیکٹ جس میں بانڈ کے بجائے سادہ کاغذ بھرے تھے، نکال  کر سمندر میں پھینک دیا اور قفل پر چند ایسے نشان لگا دیے جس سے ہر شخص یہ سمجھے کہ اسے کھولنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاز ساحل پر پہنچا، تو وہ پراسرار مرد اطمینان سے اترا اور اپنی راہ لی۔ ظاہر ہے  اداکاری کے لے گہرے شیشوں والی عینک کی ضرورت تھی تاکہ کوئی اسے بآسانی شناخت نہ کرلے۔ علاوہ ازیں اس نے خود کو بوڑھا اور بیمار بھی ظاہر کیا ہوگا تاکہ کھانے کے کمرے میں یا باہر کھلی جگہ آنے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ بیماری کا بہانہ کرکے کیبن ہی میں چھپا رہے۔ تم نے دیکھا کہ  میں نے یہ خصوصیات بیان کیں، تو خلاصیوں نے فوراً شخص کی نشاندہی کردی۔‘‘
’’نیو یارک اتر کر اس نے کیا کیا....؟‘‘
وہاں اسے کوئی خاص کام نہیں تھا، بانڈ فروخت کرنے سے جو رقم ملی، وہ محفوظ جگہ رکھوا کر وہ اگلے جہاز سے لندن آگیا۔‘‘
ٹرین رک گئی، پائرو جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا، میں اس کے پیچھے لپکا اور پلیٹ فارم پر اترتے ہی بےتابی سے پوچھا: ’’آخر وہ کون تھا....؟‘‘
’’یہ پراسرار آدمی وہی شخص تھا جس کے پاس ٹرنک کی چابی تھی، جس نے مخصوص قفل تیار کرایا اور بیماری کا بہانہ کرکے لندن سے غائب ہوگیا تاکہ جائی جنٹک  کے ذریعے نیو یارک جاسکے۔‘‘
’’تمہارا مطلب بینک کے جنرل مینجر مسٹر شا سےہے....؟‘‘
’’سو فیصد۔‘‘

میں اس کی ذہانت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔


ہرکوئل پائرو


 ہرکوئل پائروHercule Poirot (ہرکیول پیروٹ) ،  اگاتھا کرسٹی  کا لکھا با کمال اور معروف ترین فکشن کردار تھا ، بیلجئم سے تعلق رکھنے والا ایک  پرائیویٹ جاسوس  جو  شرلاک ہومز  جرائم کی پُراسرار وارداتیں نہایت ذہانت  سے حل کرنے میں ماہر تھا۔  پائرو کو منفرد تاؤ دی ہوئی اونچی مونچھوں ، گنجے سر،  بھرپور  اعتماد اور مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ پائرو اپنے منفرد انداز میں پہلے  تمام کرداروں پر پہلے شک کرتا ہے اور آخر میں کسی ایک کو مجرم ثابت کر دیتا ہے ۔ ہرکوئل پائرو  کے کارناموں میں مرڈر آن دی اورینٹ ایکسپریسThe Murder on the Orient Express، ڈیتھ آن نیل Death onthe Nile  ، مرڈر آف راجر ایکروئڈ The Murder of Roger Ackroyd، پرل ایٹ اینڈ ہاؤس Peril at End House  اور اینڈ  دھین دئیر ور نون  And Then There Were None مقبول ہیں۔  یہ کردار پچپن سال تک اگاتھا کرسٹی  ناولوں کی زینت بنتا رہا اور تینتیس ناولوں کا مرکزی کردار رہا۔    حیرت انگیز بات ہے کہ جب ایک ناول Curtain میں اس کردار کا خاتمہ ہوا تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر تعزیتی مضمون چھپا ۔  دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا فکشن کردار  ہوگا جس کی موت پر نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر اخبار نے تعزیتی کالم چھاپا ہو۔ 





[مشمولہ:  کہانیوں کے مجموعہThe Million Dollar Bond Robbery  ]

 جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ

آگاتھا کرسٹی  ۔1890ء تا 1976ء

 جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ،  آگاتھا کرسٹی  Agatha Christie کا پورا نام اگاتھا میری کلیریسا ملر تھا ، آگاتھا 1890ء میں انگلینڈ کے علاقے ٹارکی Torquay میں پیدا ہوئیں،  اور1976ء میں آکسفورڈ شائر، انگلینڈ میں وفات ہائی۔  انہیں جاسوسی کہانیاں لکھنے والی تاریخ کی عظیم ترین مصنفہ کہا جاتا ہے، اس بات کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  گنیز بک آف ریکارڈ کے مطابق دنیابھر میں شیکسپئیر کے بعد یہ واحد مصنفہ ہیں جن کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئی ہیں۔   2006ء کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے ایک ارب سے زائد نسخے فروخت ہوئے تھے ۔   انہوں نے کل 66 جاسوسی ناولزاور 153مختصر کہانیوں کے 14 مجموعے لکھے جو اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔   یوں تو آگاتھا کرسٹی  جرائم  اور   سراغ رساں پر مبنی جاسوسی کہانیوں کے لئے جانی جاتی ہیں، لیکن آپ نے  میری ویسٹماکوٹ کے قلمی نام سے رومانوی ناول بھی لکھے اور کئی  پراسرار ، سنسنی خیز اور ماورائی کہانیاں  بھی تحریر کیں ۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں