|
اس بوڑھے کو میں نے پہلے بھی دیکھا تھا۔ صبح ہی دیکھا تھا۔ وہ بینگن کے پودے چھانٹ رہا تھا ، ‘‘کمیونٹی کچن’’ سے گھر کو آتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا بھی تھا کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ اس نے بتایا تھا۔ بینگن کا پودا دو بار پھل دیتا ہے۔ ایک بار چھانٹ دیا جائے تو اور بھی پھلتا پھولتا ہے۔ اوپیندر ناتھ اشک کے قلم سے |
اگرچہ ماہی رام نے وہ بینگن کا پودا اکھاڑ دیا ہے پھر بھی جب میں ترکاری کے کھیت کی مینڈھ پر سے ہوتا ہوا اپنی کوٹھی کو جاتا ہوں تو میری آنکھوں میں بینگن کا وہ سوکھا ہوا پودا اور اس سے لٹکتا ہوا مرجھایا پچکا سا زرد بینگن پھر جاتا ہے۔
سردیوں کے مختصر سے دن کو گزرے ہوئے دیر ہوچکی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد جب میں ایک ایسا لمبا سا چکر لگا کر نیچے کھادی کی موٹی سی بنیان، اس پر چھوٹا گرم انڈرویر، اس پر موٹے کھدر کی قمیض، اس پر اچکن اور گلوبند اور ان سب کے اوپر اوور کوٹ پہن کے ہاتھ میں چھڑی لیے اپنے لوہے کی ایڑی والے فیکس کے بوٹوں کی ٹھک ٹھک میں مست، دسمبر کی مہکی، ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے کانوں کو اوور کوٹ کے کالروں میں چھپاتا ہوا اپنی کوٹھی کے برآمدے میں داخل ہوا۔ تو وہاں میلی سی چار پائی پر ایک نحیف و ناتواں بوڑھے کو خستہ اور بوسیدہ، اندھیری کالی رات کی طرح کا لحاف لپیٹے دیکھ کر کچھ ٹھٹھک سا گیا۔
‘‘کیوں بھئی کیا بات ہے....؟’’ میں نے اوورکوٹ کی جیبوں میں پڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لا کر کہا۔
‘‘کچھ نہیں بابوجی! میں ماہی رام کا آدمی ہوں۔’’
‘‘ماہی رام کے ہی سہی’’ میں نے کہا ‘‘لیکن اتنی سخت سردی میں تم اس کھلے برآمدے میں کیوں پڑےہو....؟’’
‘‘میرے پاس کپڑا ہے بابو جی!’’
میں نے چپ چاپ اپنا کمرہ کھولا۔ ٹیبل لیمپ جلتا چھوڑ دیا تھا۔ اگرچہ اوپر کے دونوں روشن دان کھلے تھے پھر بھی کمرہ گرم ہوگیا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی مٹی کے تیل کا گرم تیز بھبھکا آیا۔ بارہا میرے دوستوں نے اس طرح لیمپ جلا کے چھوڑ جانے سے منع کیا ہے۔ ‘‘شہر کی گندی فضا کو چھوڑ کر اس کھلے ماحول میں رہنے کا فائدہ ہی کیا۔’’ وہ کہا کرتے ہیں ‘‘اگر شہر کی مضر عادتوں کو نہ چھوڑا جائے.... اور بتایا کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق کمرے کو بند کرکے اندر لیمپ جلائے رکھنا نہایت مضر ہے۔ سانس کے راستے گندی ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتی ہے اور پھیپھڑوں پر اس کا دباؤ پڑتا ہے۔
میں بار بار محسوس بھی کرتا ہوں لیکن مجبور ہوجاتا ہوں۔ جب بھی کبھی دروازہ کھول کر بیٹھتا ہوں، تیز ہوا کا جھونکا اندر آتا ہے۔ میرے ہاتھ یخ ہوجاتے ہیں اور قلم چلنے سے انکار کردیتا ہے۔ تو میں اٹھ کر پھر کواڑ بھیڑ دیتا ہوں۔ جیسے سگریٹ پینے والوں کو اس کی کڑوی کسیلی سر چکرا دینے والی بو اچھی لگتی ہے، کچھ اسی طرح یہ سب کچھ بھی مجھے اچھا معلوم ہونےلگاہے۔
ہیٹ کو کھونٹی پر لٹکا کر اور گلوبند کو سر اور کانوں کے گرد لپیٹ میں کام پر آ بیٹھا۔
بیٹھ تو گیا لیکن میرا دھیان برابر برآمدے ہی کی طرف لگا رہا۔
اس بوڑھے کو میں نے پہلے بھی دیکھا تھا۔ صبح ہی دیکھا تھا۔ وہ بینگن کے پودے چھانٹ رہا تھا ۔‘‘کمیونٹی کچن’’ سے گھر کو آتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا بھی تھا کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ اس نے بتایا تھا۔ بینگن کا پودا دو بار پھل دیتا ہے۔ ایک بار چھانٹ دیا جائے تو اور بھی پھلتا پھولتا ہے۔ میں نے ان سوکھے پتوں سے محروم بینگن کے پودوں پر ایک نگاہ ڈالی تھی۔ ایک پودے پر ایک مرجھایا ہوا سوکھا سکڑا پچکا سا زرد بینگن لٹک رہا تھا۔ وہاں سے ہٹ کر میری نظر اس بوڑھے پر جا پڑی تھی۔ اس کی عمر نہ جانے کتنی تھی لیکن وہ بےحد ضعیف دکھائی دیتا تھا۔ حالانکہ سردی سے بچنے کے لیے اس نے کھیس اوڑھ رکھا تھا پھر بھی اس کے لکڑی کے سے پتلے ہاتھ بانس کی ٹانگیں، سوکھا چہرہ اور آنکھوں کے حلقے صاف نظر آتے تھے۔ اس وقت ایک عجیب سا خیال میرے دل میں پیدا ہوا تھا....
بینگن کا پودا جب سوکھ جاتا ہے، تب چھانٹ دینے پر پھر سے پھل لے آتا ہے۔ سہانجنا بھی چھانٹنے پر بڑھتا ہے۔ دنیا میں ایسے درختوں اور پودوں کی کمی نہیں جو چھانٹنے پر پہلے سے زیادہ پھلتے پھولتے ہیں تو پھر انسان کو اس خدائے برتر نے ایسا کیوں نہیں بنایا۔
لیکن وہیں کھڑے کھڑے، جیسے مجھ سے کسی نے کہا۔ انسان کی بیل بھی تو امر ہے۔ موت اس کی قینچی ہے۔ مرد عورتیں، بچے پوڈھے، اس کے پھل پھول اور شاخیں۔ جب یہ سوکھ جاتے ہیں یا گل سڑ جاتے ہیں، یہ قینچی انہیں کاٹ دیتی ہے اور ان کی جگہ نت نئے ہرے بھرے زندگی سے بھرپور اچھلتے، کودتے ناچتے گاتے پھول اور پتے لگتے ہیں اور زندگی کی امر بیل بڑھتی ہوئی پھولتی پھلتی جھومتی چلی جاتی ہے۔
لیکن یہ بوڑھا یہاں سردی میں آپڑا ہے۔ کیا اس کا کوئی گھر گھاٹ نہیں....؟ اپنی اس محویت سے ذرا چونک کر میں نے پوچھا‘‘ارے بھئی تم ہو کون....؟’’
‘‘میں جی۔ ماہی رام کا آدمی ہوں۔’’
بوڑھا کچھ جواب دینے والا ہی تھا کہ اسے کھانسی کا دورہ پڑا۔ کئی لمحے لگاتار کھانسنے کے بعد اپنے سانس کو مشکل سے درست کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ رشتے میں ماہی رام کا کچھ نہیں لگتا۔ وہ اس کا ہم وطن ہے۔ اس کا کنبہ بہت بڑا ہے۔ پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بیوی ہے۔ دو لڑکیاں ہیں.... بیاہنے کے قابل.... اور وہ روزگار کے لیے ماہی رام کے ساتھ آگیا ہے۔
اس کی آواز میں کچھ ایسا سوز تھا کہ کام کرنا میرے لیے ناممکن ہوگیا۔ میں اتنے کپڑے پہننے کے باوجود پتلون پر کمبل ڈال کر بیٹھا ہوں اور وہ غریب باہر سردی میں پڑا ہے۔ بستر کے نام پر شاید ایک میلی پھٹی چادر اس کے پاس ہے اور وہ میلا کالا لحاف بھی برسوں کا پرانا ہے.... قریب قریب پگھل کر میں نے کہا
‘‘تو بھائی اندر لیٹ جاؤ۔ باہر تو بڑی سردی ہے، برآمدہ دونوں طرف سے کھلا ہے۔ باہر تم کیوں بیٹھےہو....؟’’
لیکن اس وقت سیمنٹ کے فرش پر بھاری جوتوں کی آواز سنائی دی اور دوسرے لمحے ماہی رام.... وہ ٹھیکیدار گوپال داس کا چھ فٹ تین انچ لمبا آدمی دروازے پر آکھڑا ہوا۔ بڑی سی پگڑی۔ اس کے نیچے کالا موٹا کمبل گھنٹوں تک دھوتی اور پاؤں میں سیر سوا سیر کا جوتا۔ ایک دن چھ مولیوں کے لیے، وہ ایک میل تک ایک آدمی کے پیچھے دوڑتا گیا تھا اور اسے پکڑ کر اس نے وہ پٹخیاں دی تھیں کہ پھر اس نے کبھی ادھر کا رخ نہ کیاتھا۔
‘‘ہم نے اسے خود یہاں سلایا ہے بابو جی’’ ماہی رام نے کہا ‘‘نہ جانے کون سالا رات کو کھیتوں میں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ دو دن دیکھتے ہوگئے ہیں۔ ایک رات گوبھی کے دس پھول غائب تھے۔ سارے کھیت میں ایسے پھول نہیں ملیں گے۔ پرسوں کوئی تمام پکے ہوئے ٹماٹر اتار کر لے گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں کچن کو بھی سپلائی کرنا پڑتی ہے اور پھر سو دو روپیہ کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔ وہ سب بھی تو اسی میں سے پورا کرنا ہے اور پھر مزدوروں کی مزدوری’’....
‘‘لیکن ترکاری پر کون ڈاکہ ڈال جاتا ہے’’ میں نے کہا ‘‘یہاں تو کبھی چوری ہوتے سنی نہیں۔ میری کوٹھی سنسان جگہ میں ہے۔ پاس کوئی کوٹھی بھی نہیں۔ لیکن میں تو دروازے کھلے چھوڑ کر غائب رہتا ہوں۔’’
‘‘نہیں بابوجی....! باہر کا آدمی اتنی سردی میں صرف دس گوبھی کے پھول لینے نہیں آسکتا۔’’
‘‘وہ اور بات تھی بابوجی۔ وہ تو کوئی راہ چلتا آدمی تھا۔ جاتے جاتے اکھاڑ کر لے گیا۔ کوئی یہیں کا ہے۔ میں سالے کو ایسا سبق دوں گا کہ عمر بھر کے لیے کان لمبے ہوجائیں گے’’ اور اس کے موٹے موٹے ہونٹ پھیل گئے اور چیچک کا مارا ہوا چہرہ تن گیا۔
‘‘لیکن بھائی اگر اسے چاہو تو اندر سلا دو’’
‘‘نہیں بابوجی سردی تو امیروں کو لگتی۔ اسے تو یونہی محض دکھاوے کے لیے یہاں سلا دیا ہے۔ ورنہ رکھوالی تو میں کروں گا.... ان مونگروں کے پیچھے بیٹھ کر، جونہی یہ سمجھ کر کہ بوڑھا سوگیا ہے کوئی آیا کہ میں نے اسے دبوچا’’ اور ہنسا۔
‘‘لیکن اس کے پاس کپڑے....؟’’
‘‘کافی ہیں بابو جی’’
اور یہ کہتا ہوا وہ چلا گیا۔ بوڑھے کو پھر کھانسی کا دورہ پڑا۔
میں پھر کام میں منہمک ہوگیا۔ لیکن کام مجھ سے ہو نہ سکا۔ میرے سامنے ان دونوں کے مالک کی تصویر کھنچ گئی۔ ٹھیکیدار گوپال داس.... دھن، دولت اولاد اور بےفکری کی وجہ سے اس کے گال اس پچاس برس کی عمر میں بھی گلاب کی طرح سرخ تھے.... اس ہڈیوں میں پیوست ہونے والی سردی میں جب یہ بوڑھا باہر پڑا ہے، وہ اپنے گرم لحاف میں لیٹا دہکتی ہوئی انگیٹھی سے گرم اپنے کمرے میں مزے سے گپیں ہانک رہا ہوگا، تاش اور شطرنج میں مشغول ہوگا۔
اور یونہی سوچتے سوچتے میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔ کچھ غنودگی سی مجھ پر طاری ہونے لگی۔ کھانا زیادہ کھا گیا تھا۔ کپڑوں کا بوجھ میں نے لاد رکھا تھا اور کمرہ خوب گرم تھا.... میں اٹھا کچھ ضروری کاغذ اور قلم دوات لے کر سونے کے کمرے میں چھوڑ آیا۔ میں نے سوچا کل سویرے ذرا جلدی اٹھ کر کام کروں گا۔ دفتر کے کمرے میں تالا لگاتے ہوئے میں نے ایک بار پوچھا کہ اگر وہ چاہے تو دفتر کو کھلا چھوڑ دوں لیکن ‘‘نہیں نہیں بابو جی میرے پاس کافی کپڑے ہیں’’ اس کا یہ جواب سن کر قفل بند کرکے میں اپنے چھوٹے سے سونے کے کمرے میں چلا گیا۔ بستر بچھا ہوا تھا ، لحاف پر میں نے کمبل ڈالا اور کپڑے بدل کر لیٹ گیا۔
بستر برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ میں نے پاؤں سکیڑ لیے اور پھر انہیں آہستہ آہستہ پھیلایا۔ کئی طرح کے خیالات دماغ میں گھومنے لگے.... بےرابط بےترتیب۔ لیکن لحاف کی گرمی سے آنکھیں بوجھل ہو گئیں اورپھر بند۔
سوتے سوتے کبھی ماہی رام، کبھی اس بوڑھے اور کبھی اس کے مالک ٹھیکیدار کی صورتیں میرے سامنے آنے لگیں۔
میں نے دیکھا۔ ماہی رام نے چور پکڑ لیا ہے اور وہ اسے مارتا مارتا پاس کے گاؤں تک لے گیا ہے۔ سب گاؤں والوں کو جمع کرکے اس نے اعلان کیا ہے کہ جو ہماری سبزی چرائے گا اسے ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ اتنا کہہ کر وہ پھر چور کو زد و کوب کرنے لگتا ہے۔ چور نہایت درد بھری نگاہوں سے اس کی طرف تکتا ہے اور میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ وہ چور ٹھیکیدار گوپال داس کے سوا کوئی نہیں وہی گھٹا ہوا سر وہی پھولے ہوئے گال اور چپٹی ناک۔
میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا پاؤں سے رضائی اتر گئی ہے۔ زیادہ کھا جانے کی وجہ سے سینہ کچھ بھاری ہے اور گلا سوکھا جارہا ہے۔
میں نے سرہانے رکھے لوٹے سے پانی پیا اور پھر لحاف کو اچھی طرح سے اوڑھ کر دونوں طرف سے اسے پاؤں کے نیچے کرکے لیٹ گیا۔
باہر ہوا مکانوں سے ٹکڑیں مار رہی تھی۔ درخت حتیٰ الامکان اس کامقابلہ کرتے ہوئے جوش کی شدت سے چنگھاڑ رہے تھے۔ شاں شاں.... شاں شاں.... اور دور بادل کی گرج اور رعد کی کڑک سنائی دے رہی تھی لیکن گرم ہو کر جسم ڈھیلا پڑ گیا اور میں پھر سوگیا۔
اس بار کیا دیکھتا ہوں کہ زور کی بارش ہورہی ہے۔ تیز ہوا چلتی ہے، پاؤ پاؤ بھر کے اولے پڑتے ہیں۔ کیاریوں میں پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ ساری کی ساری سبزی تباہ ہوجاتی ہے۔ صرف اسی مرجھائے ہوئے سکڑے سمٹے پیلے زرد بینگن کا پودا رہ جاتا ہے۔
پھر وہ بینگن میرے سامنے بڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کی شکل اس بوڑھے کی سی ہوگئی۔ گھٹنوں کو پاؤں میں لے کر سینے سے لگائے وہ سکڑا سمٹا اپنی لمبی چوٹی کے سہارے لٹک رہا ہے۔ اولے اس کے سر پر لگے ہیں اور وہ اس بینگن کے پودے کے ساتھ لٹکا ہوا جھولتا ہے۔
پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہ بینگن کا پودا ایک بڑا اونچا نہ جانے جامن کا، نہ جانے آدم کا درخت بن جاتا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ نیچے کھڑی شور مچا رہی ہے ‘‘بوڑھا مرگیا۔ بوڑھا پھانسی لگا کر مرگیا۔’’
پھر میرے کانوں میں صرف ‘‘مر گیا مر گیا’’ کی آواز آتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاخ ٹوٹ رہی ہے.... کُر کُر.... کڑ کڑ....
میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کوئی زور سے دروازہ کھٹ کھٹا رہا ہے۔ جلدی سے گرم جرابیں پہن، سر پر ٹوپی پہن اور کمبل کو اچھی طرح لپیٹ کر میں اٹھا، دروازہ کھولا۔ دیکھا تو سیکریٹری صاحب دوسرے کوئی اصحاب کے ساتھ کھڑے ہیں۔
‘‘کیا بات ہے....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘رات آپ کے برآمدہ میں بوڑھا مرگیا۔’’
میں نے دیکھا۔ اس میلی سی کالی چار پائی پر اپنے اردگرد وہی میلا کچیلا لحاف لپیٹے بوڑھا جھکا ہوا پڑا ہے۔ اس کا جسم اکڑ گیا ہے اور آنکھیں پھٹی پڑی ہیں۔
اس کا لحاف بھیگ گیا ہے۔ دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے اور برآمدے کا سارا فرش گیلا ہے۔
‘‘میں نے تو رات ہی اس سے کہا تھا کہ دروازہ کھلا.... میں نے کہنا شروع کیا۔
لیکن سیکرٹری صاحب نے میری بات کو کاٹ دیا ‘‘میں چائے کے لیے کچن سے دودھ لینے جارہا تھا’’ کہ اسے بارش میں بھیگتے پایا۔ آواز دی لیکن یہ ہلا تک نہیں۔ آکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ رات سردی میں اکڑ گیا ہے’’ یہ کہہ کر انہوں نے ٹھیکیدار کے آدمیوں کو حکم دیا کہ اسے اٹھوانے کا انتظام کیا جائے۔
اس کے دو دن بعد کچن کو جاتے ہوئے اچانک رک کر میں نے ماہی رام سے کہا
‘‘خدا کے لیے اس پیلے بینگن کے پودے کو اکھاڑ دو۔’’
میری آواز میں کچھ ایسی بات تھی کہ ماہی رام حیران میری طرف دیکھنے لگا اور پھر اس نے کہا۔
‘‘بہت اچھا سرکار’’
سردیوں کے مختصر سے دن کو گزرے ہوئے دیر ہوچکی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد جب میں ایک ایسا لمبا سا چکر لگا کر نیچے کھادی کی موٹی سی بنیان، اس پر چھوٹا گرم انڈرویر، اس پر موٹے کھدر کی قمیض، اس پر اچکن اور گلوبند اور ان سب کے اوپر اوور کوٹ پہن کے ہاتھ میں چھڑی لیے اپنے لوہے کی ایڑی والے فیکس کے بوٹوں کی ٹھک ٹھک میں مست، دسمبر کی مہکی، ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے کانوں کو اوور کوٹ کے کالروں میں چھپاتا ہوا اپنی کوٹھی کے برآمدے میں داخل ہوا۔ تو وہاں میلی سی چار پائی پر ایک نحیف و ناتواں بوڑھے کو خستہ اور بوسیدہ، اندھیری کالی رات کی طرح کا لحاف لپیٹے دیکھ کر کچھ ٹھٹھک سا گیا۔
‘‘کیوں بھئی کیا بات ہے....؟’’ میں نے اوورکوٹ کی جیبوں میں پڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لا کر کہا۔
‘‘کچھ نہیں بابوجی! میں ماہی رام کا آدمی ہوں۔’’
‘‘ماہی رام کے ہی سہی’’ میں نے کہا ‘‘لیکن اتنی سخت سردی میں تم اس کھلے برآمدے میں کیوں پڑےہو....؟’’
‘‘میرے پاس کپڑا ہے بابو جی!’’
میں نے چپ چاپ اپنا کمرہ کھولا۔ ٹیبل لیمپ جلتا چھوڑ دیا تھا۔ اگرچہ اوپر کے دونوں روشن دان کھلے تھے پھر بھی کمرہ گرم ہوگیا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی مٹی کے تیل کا گرم تیز بھبھکا آیا۔ بارہا میرے دوستوں نے اس طرح لیمپ جلا کے چھوڑ جانے سے منع کیا ہے۔ ‘‘شہر کی گندی فضا کو چھوڑ کر اس کھلے ماحول میں رہنے کا فائدہ ہی کیا۔’’ وہ کہا کرتے ہیں ‘‘اگر شہر کی مضر عادتوں کو نہ چھوڑا جائے.... اور بتایا کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق کمرے کو بند کرکے اندر لیمپ جلائے رکھنا نہایت مضر ہے۔ سانس کے راستے گندی ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتی ہے اور پھیپھڑوں پر اس کا دباؤ پڑتا ہے۔
میں بار بار محسوس بھی کرتا ہوں لیکن مجبور ہوجاتا ہوں۔ جب بھی کبھی دروازہ کھول کر بیٹھتا ہوں، تیز ہوا کا جھونکا اندر آتا ہے۔ میرے ہاتھ یخ ہوجاتے ہیں اور قلم چلنے سے انکار کردیتا ہے۔ تو میں اٹھ کر پھر کواڑ بھیڑ دیتا ہوں۔ جیسے سگریٹ پینے والوں کو اس کی کڑوی کسیلی سر چکرا دینے والی بو اچھی لگتی ہے، کچھ اسی طرح یہ سب کچھ بھی مجھے اچھا معلوم ہونےلگاہے۔
ہیٹ کو کھونٹی پر لٹکا کر اور گلوبند کو سر اور کانوں کے گرد لپیٹ میں کام پر آ بیٹھا۔
بیٹھ تو گیا لیکن میرا دھیان برابر برآمدے ہی کی طرف لگا رہا۔
اس بوڑھے کو میں نے پہلے بھی دیکھا تھا۔ صبح ہی دیکھا تھا۔ وہ بینگن کے پودے چھانٹ رہا تھا ۔‘‘کمیونٹی کچن’’ سے گھر کو آتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا بھی تھا کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ اس نے بتایا تھا۔ بینگن کا پودا دو بار پھل دیتا ہے۔ ایک بار چھانٹ دیا جائے تو اور بھی پھلتا پھولتا ہے۔ میں نے ان سوکھے پتوں سے محروم بینگن کے پودوں پر ایک نگاہ ڈالی تھی۔ ایک پودے پر ایک مرجھایا ہوا سوکھا سکڑا پچکا سا زرد بینگن لٹک رہا تھا۔ وہاں سے ہٹ کر میری نظر اس بوڑھے پر جا پڑی تھی۔ اس کی عمر نہ جانے کتنی تھی لیکن وہ بےحد ضعیف دکھائی دیتا تھا۔ حالانکہ سردی سے بچنے کے لیے اس نے کھیس اوڑھ رکھا تھا پھر بھی اس کے لکڑی کے سے پتلے ہاتھ بانس کی ٹانگیں، سوکھا چہرہ اور آنکھوں کے حلقے صاف نظر آتے تھے۔ اس وقت ایک عجیب سا خیال میرے دل میں پیدا ہوا تھا....
بینگن کا پودا جب سوکھ جاتا ہے، تب چھانٹ دینے پر پھر سے پھل لے آتا ہے۔ سہانجنا بھی چھانٹنے پر بڑھتا ہے۔ دنیا میں ایسے درختوں اور پودوں کی کمی نہیں جو چھانٹنے پر پہلے سے زیادہ پھلتے پھولتے ہیں تو پھر انسان کو اس خدائے برتر نے ایسا کیوں نہیں بنایا۔
لیکن وہیں کھڑے کھڑے، جیسے مجھ سے کسی نے کہا۔ انسان کی بیل بھی تو امر ہے۔ موت اس کی قینچی ہے۔ مرد عورتیں، بچے پوڈھے، اس کے پھل پھول اور شاخیں۔ جب یہ سوکھ جاتے ہیں یا گل سڑ جاتے ہیں، یہ قینچی انہیں کاٹ دیتی ہے اور ان کی جگہ نت نئے ہرے بھرے زندگی سے بھرپور اچھلتے، کودتے ناچتے گاتے پھول اور پتے لگتے ہیں اور زندگی کی امر بیل بڑھتی ہوئی پھولتی پھلتی جھومتی چلی جاتی ہے۔
لیکن یہ بوڑھا یہاں سردی میں آپڑا ہے۔ کیا اس کا کوئی گھر گھاٹ نہیں....؟ اپنی اس محویت سے ذرا چونک کر میں نے پوچھا‘‘ارے بھئی تم ہو کون....؟’’
‘‘میں جی۔ ماہی رام کا آدمی ہوں۔’’
بوڑھا کچھ جواب دینے والا ہی تھا کہ اسے کھانسی کا دورہ پڑا۔ کئی لمحے لگاتار کھانسنے کے بعد اپنے سانس کو مشکل سے درست کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ رشتے میں ماہی رام کا کچھ نہیں لگتا۔ وہ اس کا ہم وطن ہے۔ اس کا کنبہ بہت بڑا ہے۔ پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بیوی ہے۔ دو لڑکیاں ہیں.... بیاہنے کے قابل.... اور وہ روزگار کے لیے ماہی رام کے ساتھ آگیا ہے۔
اس کی آواز میں کچھ ایسا سوز تھا کہ کام کرنا میرے لیے ناممکن ہوگیا۔ میں اتنے کپڑے پہننے کے باوجود پتلون پر کمبل ڈال کر بیٹھا ہوں اور وہ غریب باہر سردی میں پڑا ہے۔ بستر کے نام پر شاید ایک میلی پھٹی چادر اس کے پاس ہے اور وہ میلا کالا لحاف بھی برسوں کا پرانا ہے.... قریب قریب پگھل کر میں نے کہا
‘‘تو بھائی اندر لیٹ جاؤ۔ باہر تو بڑی سردی ہے، برآمدہ دونوں طرف سے کھلا ہے۔ باہر تم کیوں بیٹھےہو....؟’’
لیکن اس وقت سیمنٹ کے فرش پر بھاری جوتوں کی آواز سنائی دی اور دوسرے لمحے ماہی رام.... وہ ٹھیکیدار گوپال داس کا چھ فٹ تین انچ لمبا آدمی دروازے پر آکھڑا ہوا۔ بڑی سی پگڑی۔ اس کے نیچے کالا موٹا کمبل گھنٹوں تک دھوتی اور پاؤں میں سیر سوا سیر کا جوتا۔ ایک دن چھ مولیوں کے لیے، وہ ایک میل تک ایک آدمی کے پیچھے دوڑتا گیا تھا اور اسے پکڑ کر اس نے وہ پٹخیاں دی تھیں کہ پھر اس نے کبھی ادھر کا رخ نہ کیاتھا۔
‘‘ہم نے اسے خود یہاں سلایا ہے بابو جی’’ ماہی رام نے کہا ‘‘نہ جانے کون سالا رات کو کھیتوں میں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ دو دن دیکھتے ہوگئے ہیں۔ ایک رات گوبھی کے دس پھول غائب تھے۔ سارے کھیت میں ایسے پھول نہیں ملیں گے۔ پرسوں کوئی تمام پکے ہوئے ٹماٹر اتار کر لے گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں کچن کو بھی سپلائی کرنا پڑتی ہے اور پھر سو دو روپیہ کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔ وہ سب بھی تو اسی میں سے پورا کرنا ہے اور پھر مزدوروں کی مزدوری’’....
‘‘لیکن ترکاری پر کون ڈاکہ ڈال جاتا ہے’’ میں نے کہا ‘‘یہاں تو کبھی چوری ہوتے سنی نہیں۔ میری کوٹھی سنسان جگہ میں ہے۔ پاس کوئی کوٹھی بھی نہیں۔ لیکن میں تو دروازے کھلے چھوڑ کر غائب رہتا ہوں۔’’
‘‘نہیں بابوجی....! باہر کا آدمی اتنی سردی میں صرف دس گوبھی کے پھول لینے نہیں آسکتا۔’’
‘‘وہ اور بات تھی بابوجی۔ وہ تو کوئی راہ چلتا آدمی تھا۔ جاتے جاتے اکھاڑ کر لے گیا۔ کوئی یہیں کا ہے۔ میں سالے کو ایسا سبق دوں گا کہ عمر بھر کے لیے کان لمبے ہوجائیں گے’’ اور اس کے موٹے موٹے ہونٹ پھیل گئے اور چیچک کا مارا ہوا چہرہ تن گیا۔
‘‘لیکن بھائی اگر اسے چاہو تو اندر سلا دو’’
‘‘نہیں بابوجی سردی تو امیروں کو لگتی۔ اسے تو یونہی محض دکھاوے کے لیے یہاں سلا دیا ہے۔ ورنہ رکھوالی تو میں کروں گا.... ان مونگروں کے پیچھے بیٹھ کر، جونہی یہ سمجھ کر کہ بوڑھا سوگیا ہے کوئی آیا کہ میں نے اسے دبوچا’’ اور ہنسا۔
‘‘لیکن اس کے پاس کپڑے....؟’’
‘‘کافی ہیں بابو جی’’
اور یہ کہتا ہوا وہ چلا گیا۔ بوڑھے کو پھر کھانسی کا دورہ پڑا۔
میں پھر کام میں منہمک ہوگیا۔ لیکن کام مجھ سے ہو نہ سکا۔ میرے سامنے ان دونوں کے مالک کی تصویر کھنچ گئی۔ ٹھیکیدار گوپال داس.... دھن، دولت اولاد اور بےفکری کی وجہ سے اس کے گال اس پچاس برس کی عمر میں بھی گلاب کی طرح سرخ تھے.... اس ہڈیوں میں پیوست ہونے والی سردی میں جب یہ بوڑھا باہر پڑا ہے، وہ اپنے گرم لحاف میں لیٹا دہکتی ہوئی انگیٹھی سے گرم اپنے کمرے میں مزے سے گپیں ہانک رہا ہوگا، تاش اور شطرنج میں مشغول ہوگا۔
اور یونہی سوچتے سوچتے میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔ کچھ غنودگی سی مجھ پر طاری ہونے لگی۔ کھانا زیادہ کھا گیا تھا۔ کپڑوں کا بوجھ میں نے لاد رکھا تھا اور کمرہ خوب گرم تھا.... میں اٹھا کچھ ضروری کاغذ اور قلم دوات لے کر سونے کے کمرے میں چھوڑ آیا۔ میں نے سوچا کل سویرے ذرا جلدی اٹھ کر کام کروں گا۔ دفتر کے کمرے میں تالا لگاتے ہوئے میں نے ایک بار پوچھا کہ اگر وہ چاہے تو دفتر کو کھلا چھوڑ دوں لیکن ‘‘نہیں نہیں بابو جی میرے پاس کافی کپڑے ہیں’’ اس کا یہ جواب سن کر قفل بند کرکے میں اپنے چھوٹے سے سونے کے کمرے میں چلا گیا۔ بستر بچھا ہوا تھا ، لحاف پر میں نے کمبل ڈالا اور کپڑے بدل کر لیٹ گیا۔
بستر برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ میں نے پاؤں سکیڑ لیے اور پھر انہیں آہستہ آہستہ پھیلایا۔ کئی طرح کے خیالات دماغ میں گھومنے لگے.... بےرابط بےترتیب۔ لیکن لحاف کی گرمی سے آنکھیں بوجھل ہو گئیں اورپھر بند۔
سوتے سوتے کبھی ماہی رام، کبھی اس بوڑھے اور کبھی اس کے مالک ٹھیکیدار کی صورتیں میرے سامنے آنے لگیں۔
میں نے دیکھا۔ ماہی رام نے چور پکڑ لیا ہے اور وہ اسے مارتا مارتا پاس کے گاؤں تک لے گیا ہے۔ سب گاؤں والوں کو جمع کرکے اس نے اعلان کیا ہے کہ جو ہماری سبزی چرائے گا اسے ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ اتنا کہہ کر وہ پھر چور کو زد و کوب کرنے لگتا ہے۔ چور نہایت درد بھری نگاہوں سے اس کی طرف تکتا ہے اور میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ وہ چور ٹھیکیدار گوپال داس کے سوا کوئی نہیں وہی گھٹا ہوا سر وہی پھولے ہوئے گال اور چپٹی ناک۔
میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا پاؤں سے رضائی اتر گئی ہے۔ زیادہ کھا جانے کی وجہ سے سینہ کچھ بھاری ہے اور گلا سوکھا جارہا ہے۔
میں نے سرہانے رکھے لوٹے سے پانی پیا اور پھر لحاف کو اچھی طرح سے اوڑھ کر دونوں طرف سے اسے پاؤں کے نیچے کرکے لیٹ گیا۔
باہر ہوا مکانوں سے ٹکڑیں مار رہی تھی۔ درخت حتیٰ الامکان اس کامقابلہ کرتے ہوئے جوش کی شدت سے چنگھاڑ رہے تھے۔ شاں شاں.... شاں شاں.... اور دور بادل کی گرج اور رعد کی کڑک سنائی دے رہی تھی لیکن گرم ہو کر جسم ڈھیلا پڑ گیا اور میں پھر سوگیا۔
اس بار کیا دیکھتا ہوں کہ زور کی بارش ہورہی ہے۔ تیز ہوا چلتی ہے، پاؤ پاؤ بھر کے اولے پڑتے ہیں۔ کیاریوں میں پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ ساری کی ساری سبزی تباہ ہوجاتی ہے۔ صرف اسی مرجھائے ہوئے سکڑے سمٹے پیلے زرد بینگن کا پودا رہ جاتا ہے۔
پھر وہ بینگن میرے سامنے بڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کی شکل اس بوڑھے کی سی ہوگئی۔ گھٹنوں کو پاؤں میں لے کر سینے سے لگائے وہ سکڑا سمٹا اپنی لمبی چوٹی کے سہارے لٹک رہا ہے۔ اولے اس کے سر پر لگے ہیں اور وہ اس بینگن کے پودے کے ساتھ لٹکا ہوا جھولتا ہے۔
پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہ بینگن کا پودا ایک بڑا اونچا نہ جانے جامن کا، نہ جانے آدم کا درخت بن جاتا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ نیچے کھڑی شور مچا رہی ہے ‘‘بوڑھا مرگیا۔ بوڑھا پھانسی لگا کر مرگیا۔’’
پھر میرے کانوں میں صرف ‘‘مر گیا مر گیا’’ کی آواز آتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاخ ٹوٹ رہی ہے.... کُر کُر.... کڑ کڑ....
میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کوئی زور سے دروازہ کھٹ کھٹا رہا ہے۔ جلدی سے گرم جرابیں پہن، سر پر ٹوپی پہن اور کمبل کو اچھی طرح لپیٹ کر میں اٹھا، دروازہ کھولا۔ دیکھا تو سیکریٹری صاحب دوسرے کوئی اصحاب کے ساتھ کھڑے ہیں۔
‘‘کیا بات ہے....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘رات آپ کے برآمدہ میں بوڑھا مرگیا۔’’
میں نے دیکھا۔ اس میلی سی کالی چار پائی پر اپنے اردگرد وہی میلا کچیلا لحاف لپیٹے بوڑھا جھکا ہوا پڑا ہے۔ اس کا جسم اکڑ گیا ہے اور آنکھیں پھٹی پڑی ہیں۔
اس کا لحاف بھیگ گیا ہے۔ دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے اور برآمدے کا سارا فرش گیلا ہے۔
‘‘میں نے تو رات ہی اس سے کہا تھا کہ دروازہ کھلا.... میں نے کہنا شروع کیا۔
لیکن سیکرٹری صاحب نے میری بات کو کاٹ دیا ‘‘میں چائے کے لیے کچن سے دودھ لینے جارہا تھا’’ کہ اسے بارش میں بھیگتے پایا۔ آواز دی لیکن یہ ہلا تک نہیں۔ آکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ رات سردی میں اکڑ گیا ہے’’ یہ کہہ کر انہوں نے ٹھیکیدار کے آدمیوں کو حکم دیا کہ اسے اٹھوانے کا انتظام کیا جائے۔
اس کے دو دن بعد کچن کو جاتے ہوئے اچانک رک کر میں نے ماہی رام سے کہا
‘‘خدا کے لیے اس پیلے بینگن کے پودے کو اکھاڑ دو۔’’
میری آواز میں کچھ ایسی بات تھی کہ ماہی رام حیران میری طرف دیکھنے لگا اور پھر اس نے کہا۔
‘‘بہت اچھا سرکار’’
ہندی اور اردو کے مشہور ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر اور ڈراما نویس |
اوپندر ناتھ اشک ۔1910ء تا1996 ء |
ہندی اور اردو کے مشہور ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر اور ڈراما نویس اوپندر ناتھ اشک 14 دسمبر، 1910ء کو جالندھر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1930ء تک لاہور، پاکستان میں رہائش پزیر رہے، بعد ازاں ہندوستان میں منتقل ہوگئے۔ ادبی زندگی کی ابتدا پنجابی شاعری سے کی۔ بعد ازاں اردو کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ ان کی پہلی نظم 1926ء میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا۔ ہندوستان میں مختلف اخبارات و رسائل کے لیے تحریریں لکھتے رہے۔ 1941ء سے 1945ء تک کا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزارا۔ بمبئی میں رہائش اختیار کرنے کے بعد فلم کی جانب راغب ہوئے اور کئی فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کئے۔ اس کے علاوہ دوستوفسکی اور اونیل کے شاہکار تراجم بھی آپ کے حصے میں آئے۔ کچھ عرصے بعد الہ آباد منتقل ہوگئے۔ وہاں نیلاب پرکاش کے نام سے اشاعتی ادارہ قائم کیا ۔ اوپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔ اشک افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔ اوپندر ناتھ اشک کو 1965ء میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اوپندر ناتھ اشک 19 جنوری 1996ء کو الہ آباد، اترپردیش، ہندوستان میں 85 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں