|
قدیم زمانے میں ادب کوصرف دل بہلانے کی چیز سمجھا جاتا تھالیکن رفتہ رفتہ ادب زندگی کا ترجمان بن گیا اور انسانی زندگی کے مسائل اس کا لازمی جُز بن گئے۔ انسان جب مصروف رہنے لگااور طویل داستانیں سننے کا وقت بھی اس کے پاس نہیں رہاتو پھر داستانوں کی جگہ ناول اور افسانے وجود میں آئے ۔ جس میں اصلاحی،اخلاقی مقاصدکی غرض سے سماج میں پھیلے بُرے رسم و رواج ،کوتاہیوں،خامیوں کے اوپر قلم اٹھایا گیا۔ پھر مشینوں کی ایجاد نے جہاں لوگوں کیلئے ترقی دی وہیں ان سے وقت بھی چھین لیا۔ ایسے حالات ادب نے بھی مختصر صورت اختیار کی اور مختصر افسانوں اور افسانچوں کا دور آیا۔ ادب و مزاح کے ساتھ انسانوں کے دکھ درد،زندگی کے زیر و بم، سماجی،سیاسی،معاشرتی اور اخلاقی مسائل سبھی کچھ مختصر الفاظ کے ان افسانوں میں سمیٹ لیاگیا ۔ افسانہ نویسوں نے مزاح میں لوگوں کے سماجی،سیاسی اور معاشی حالات کی بھر پور عکاسی کی۔ ان مختصر افسانہ نویسوں میں روس کے سلوگب ، فرانس کے موپاساں ، اردو ادب کے ابنِ انشاء اور عربی ادب کے زکریا تامر کا نام مقبول ہے۔ زیر نظر کہانیوں میں کچھ کہانیاں کتابچہ کی صورت میں شایع ہوئی ہیں اور بیشتر کہانیاں‘‘زکریا تامر’’ کی مختصر عربی کہانیوں کے مجموعہ الحصرم (Sour Grapes ) یعنی ‘‘انگور کھٹے ہیں ’’ سے ترجمہ گئی ہیں۔ ترجمہ: آدم شیر / قیصر نذیر خاورؔ / |
الحمامة البيضاء
سفید کبوتری
اس بڑی سی دنیا کے کسی حصّے میں ایک سرسبز اور شاداب جنگل تھا۔ جس کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی تھی۔ یہیں ایک سفید کبوتری اپنے ایک بچے کے ساتھ بڑے چین و آرام سے رہتی تھی۔ ایک دن کبوتری اپنے دانے دُنکے کی تلاش میں اپنے گھونسلے سے نکلی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کا بچہ گھونسلے میں نہیں ہے۔
اس نے اپنے بچّے کو گھونسلے کے آس پاس بہت ڈھونڈا لیکن اس کا کہیں پتا نہ چلا۔ کبوتری کا ننھّا سا دل غم سے بھر گیا اور وہ یہ طے کر کے گھونسلے سے نکلی کہ جب تک بچّہ نہیں ملے گا وہ اسے ڈھونڈتی رہے گی۔ وہ اڑتی رہی۔ اڑتی رہی۔ ہر طرف اپنے بچّے کو تلاش کرتی رہی۔ وہ کہیں نہ ملا۔ آخر تھک ہار کر وہ نہر کے کنارے آ بیٹھی اور رنج اور غم کے مارے رونے لگی۔
وہیں ایک مچھلی پانی میں تیر رہی تھی۔ اس نے جو کبوتری کو اس طرح روتے دیکھا تو پانی میں سے سر نکالا اور بولی،
‘‘اے خوبصورت کبوتری! تم پر کیا مصیبت آئی ہے جو اس طرح رو رہی ہو؟ کیا تم بیمار ہو؟“
کبوتری نے جواب دیا، "میں بیمار نہیں ہوں۔ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ آج جب میں اپنے گھونسلے میں واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ میرا چھوٹا سا بچّہ وہاں نہیں ہے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ جنگل کی سیر کرنے نکل گیا ہوگا اور چونکہ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے اس لیے گُم ہو گیا ہوگا۔“
مچھلی نے کہا، "تمہارا فرض تھا کہ اس کی نگرانی کرتیں۔ میں بھی تمہاری طرح ایک ماں ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ تمہیں اس وقت کتنا رنج ہوگا۔“
کبوتری نے کہا، "میں اس لیے اور بھی زیادہ پریشان ہوں کہ میرا بچّہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اپنی حفاظت کیسے کرے۔
مچھلی نے کہا، "میں تمھارے بچے کو ڈھونڈنے میں تمہاری مدد کروں گی۔ میں اس کی تلاش میں اس نہر کے آخری سرے تک جاتی ہوں۔“
کبوتری نے کہا، "تمہاری اس مہربانی کا شکریہ لیکن وہ تو پرندہ ہے۔ پانی میں نہیں رہ سکتا۔“
مچھلی بولی، "ہو سکتا ہے اسے پیاس لگی ہو اور وہ پانی پینے نہر میں آیا ہو۔ اس لیے میں اس کو ڈھونڈنے جاتی ہوں۔ تم بھی اسے ڈھونڈو۔ رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے تمہارا بچّہ ملنے سے تو رہا۔“
کبوتری نے مچھلی کا شکریہ ادا کیا اور اسے الله حافظ کہہ کر اپنے بچے کی تلاش میں نکل گئی۔ بڑی دیر تک وہ اسے ڈھونڈتی رہی لیکن جب وہ نہ ملا تو تھک ہار کر ایک کھیت میں زمین پر بیٹھ گئی۔ اسے اپنا بچّہ بہت یاد آ رہا تھا۔ اس کا دل بھر آیا اور وہ رونے لگی۔
ایک خرگوش جو کھیت میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا، نے اسے دیکھا۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا، "کیا بات ہے؟ کیوں رو رہی ہو؟ اگر بھوکی ہو تو میں تمہیں اس کھیت میں لے چلتا ہوں۔ یہاں تمہارے کھانے پینے کے لیے بہت مزیدار چیزیں ہیں۔“
کبوتری نے روتے ہوئے جواب دیا، "میں بھوکی نہیں ہوں۔“
خرگوش بولا، "پھر کیا بات ہے۔ کیوں روتی ہو؟“
کبوتری نے کہا، "میں اس لیے رو رہی ہوں کہ میرا پیارا چھوٹا سا بچّہ کھو گیا ہے۔ صبح سے یہ وقت ہو گیا ہے، وہ مجھے نہیں ملا۔ میں نے ہر طرف اسے تلاش کر لیا ہے۔“
خرگوش اگرچہ کھانے میں مصروف تھا لیکن اس نے کبوتری کو تسلّی دی اور کہنے لگا، "رنجیدہ مت ہو۔ میں تمھارے بچّے کو تلاش کرنے میں تمہاری مدد کروں گا۔ جتنی تیزی سے میں دوڑ سکتا ہوں، دوڑوں گا اور سارے جنگل میں اسے تلاش کروں گا۔“
کبوتری نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اڑ گئی۔ خرگوش بھی کبوتری کے بچّے کو جنگل میں تلاش کرنے کے لیے روانہ ہو گیا۔
اپنے بچّے کی تلاش میں اڑتے اڑتے کبوتری کی نگاہ ایک گدھے پر پڑی جو ایک سبزہ زار میں کھڑا گھاس چر رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آئی اور پوچھنے لگی، "کیا تم نے ایک چھوٹا سا سفید کبوتر دیکھا ہے؟“
گدھے نے اپنی پوری حماقت کے ساتھ جواب دیا، "تم نے بھی عجیب بےکار سوال کیا ہے۔ کیا تم نے آج تک کوئی گدھا ایسا دیکھا ہے جو سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا ہو؟ ہم گدھے ہمیشہ یا تو گھاس کھاتے رہتے ہیں یا بوجھ اٹھائے چلتے رہتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں ہمارا سر نیچے جھکا رہتا ہے۔“
اسی دوران ایک کالی بلّی وہاں آ گئی اور یونہی پوچھنے لگی، "کیا بات ہے؟“
گدھے نے کہا، "اس کبوتری کا بچّہ کھو گیا ہے۔ تم نے تو اسے نہیں دیکھا؟“
بلّی بولی، "افسوس کہ میں نے اسے نہیں دیکھا۔ اگر وہ مجھے مل جاتا تو میرے ناشتے کا انتظام ہو جاتا۔“
یہ الفاظ سن کر کبوتری کا دل پھر بھر آیا اور وہ رونے لگی۔
بلّی کبوتری کو روتا دیکھ کر بولی، ‘‘میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو تاکہ میں تمہیں کھا جاؤں۔ اس طرح تمہارا غم بھی مٹ جائے گا اور میری بھوک کا علاج بھی ہو جائےگا۔’’
گدھا بلّی کی یہ باتیں سن کر غصّے میں آ گیا اور ڈانٹ کر بلّی سے کہنے لگا، "اگر تو اسی وقت یہاں سے چلی نہ گئی تو تیرے ایسی لات رسید کروں گا کہ تو گاؤں کے بھوکے کتّوں کے پاس جا پڑے گی۔“
بلّی نے جو یہ بات سنی تو وہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی خیریت سمجھی۔
بلّی کے جانے کے بعد گدھا کبوتری سے بولا، "جلدی کرو۔ رات آ رہی ہے۔ تم اڑ جاؤ۔ بلّی کی باتوں سے خود کو ہلکان نہ کرو۔“
کبوتری نے گدھے کا شکریہ ادا کیا اور اسے الله حافظ کہہ کر پھر اپنے بچّے کی تلاش میں اڑ گئی۔
اب رات کی سیاہ چادر آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی تھی۔ تھکی ہاری، غم زدہ کبوتری نے ناچار اپنے گھونسلے کا رخ کیا۔ جب وہ گھونسلے میں پہنچی تو خوشی سے چلّا اٹھی، "میرے بچّے!“
اس کا ننھا سفید بچّہ گھونسلے میں بیٹھا ہوا تھا۔
کبوتری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، مگر یہ خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے اپنے بچّے سے پوچھا، "تم کہاں تھے؟“
بچّے نے جواب دیا، "میں ذرا اِدھر اُدھر سیر کرنے گھونسلے سے نکل گیا تھا لیکن جب واپس آنے کے لیے پلٹا تو گھر کا راستہ بھول گیا۔“
کبوتری نے پوچھا، "پھر یہاں تک کیسے پہنچے؟“
بچّے نے جواب دیا، "مجھے راستہ تو یاد نہیں رہا تھا۔ بس اندر سے کسی نے میری رہنمائی کی اور مجھے یہاں پہنچا دیا۔“
کبوتری کو یاد آیا کہ وہ جب چھوٹی سی تھی تو ایک دن اسی طرح کھو گئی تھی۔ وہ کہنے لگی، ‘‘میرے بچّے! تم ٹھیک کہتے ہو۔ جب کوئی اپنی راہ کھو دیتا ہے تو گھر کی محبّت اس کو راہ دکھاتی ہے اور گھر تک پہنچا دیتی ہے۔ چاہے خطرناک دشمن ہی کیوں نہ راہ میں بیٹھے ہوں۔’’
******
لكل ثعلب نهاية
لومڑی کا انجام
الو کے شور سے قریب سوئے شیر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے پریشان ہو کر اسے حاکمانہ لہجے میں کہا:
“بس بہت ہوا!.... بندکرو اپنا یہ دہلا دینے والا شور۔’’
‘‘میں نے آپ کو اس لئے جگایا کہ آپ کو آگاہ کر سکوں کہ آپ آنے والے دنوں میں مرنے والے ہیں کیونکہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ۔” الو نے جواب دیا،
“ آپ مر جاؤ گے اور اس جنگل سے بہت دور چلے جاؤ گے۔’’
شیر نے نظر گھما کر اپنے ارد گرد دیکھا، صاف نیلے آسمان ، سنہری چمکیلی دھوپ، سبز گھاس اور پیلے، لال اور سفید پھولوں کو دیکھ کر بے ثباتی عالم پر غور کیا تو اور پریشان ہو گیا۔ اسے موت اور الو سے نفرت ہونے لگی۔ بڑھاپے کا احساس اسے تکلیف دینے لگا لیکن جیسے ہی اس کی نظر ایک فربہ لومڑی پر پڑی تو اس کا سارا تاسف جاتا رہا اور اس نے لومڑی کا تعاقب کرنے کی ٹھانی۔
الو نے پھر شور مچا دیا؛ “ لومڑی مرنے والی ہے.... لومڑی مرنے والی ہے۔’’
‘‘لومڑی کو جب اس خطرے سے آگاہی ہوئی تو وہ بری طرح خوفزدہ ہو گئی لیکن وہ وہاں سے بھاگی نہیں۔ وہ جلدی سے شیر کے پاس پہنچی اور الو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو کہا؛ “ آپ سچ مچ اس کاہن کی باتوں پر یقین کرتے ہیں؟
"شیر متجسّس ہوا اور اس نے لومڑی سے پوچھا؛ “ تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
" کل ، اسی طرح کے ایک کاہن نے مجھے کہا تھا کہ جس روز میری موت واقع ہو گی تو اس کے اگلے دن آپ بھی چل بسیں گے ۔”
شیر کے چہرے پر حقارت بھری مسکراہٹ آئی اور اس نے ٹھٹھا لگاتے ہوئے کہا؛ “ اور تمہیں کیسے پتہ ہے کہ وہ کاہن میرے بارے میں ہی بات کر رہا تھا؟ یہ جنگل شیروں سے بھرا پڑا ہے ، اور جیسا کہ تم جانتی ہو ہم شیروں کے نام نہیں ہوتے "۔
اس کاہن نے مجھے یہ بتایا تھا کہ میں اس شیر کو دیکھتے ہی بھانپ جاؤں گی جس نے میرے مرنے کے بعد اس دنیا سے جانا ہو گا کیونکہ میں جان جاؤں گی کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اور جیسے ہی میں نے آپ کو دیکھا ، مجھے فوری طور پر پتہ چل گیا کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں"۔
“ اور میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں ؟ ” مخمسے میں پھنسے شیر نے پوچھا۔
“ آپ سوچ رہے ہیں کہ لومڑی کا گوشت اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ یہ تمام غم بھلا دیتا ہے اور سب بیماریوں کو سرعت سے ٹھیک کر دیتا ہے۔ ”
شیر حیران ہو کر بولا؛ “ سچی بات تو یہ ہے کہ میں واقعی ایسا ہی سوچ رہا تھا۔ ”
یہ سن کر الو نے پھر شور مچا دیا: “ چالاک لومڑی نے طاقتور شیر کو جھانسا دے دیا۔ ”
“ چپ کرو، تمہارا اس معاملے سے کیا لینا دینا۔” شیر نے الو کو سختی سے ڈانٹا ۔ پھر وہ لومڑی کی طرف متوجہ ہوا اور اسے حلیمی کے ساتھ التجائی انداز میں کہنے لگا؛ “ میرے ساتھ رہو، میں تمہیں گوشت، انگور اور وہ سب جو تمہیں چاہئیے ہو گا ، مہیا کروں گا۔ ”
لومڑی یہ سن کر خوش ہوئی اور اس نے شیر کو معاہدے کا عندیہ دے دیا۔ پہلے کی ناخوشگوار صورت حال بدلی ، ایک محبت نے جنم لیا جس میں وہ خوشی خوشی بلا خوف و خطر اور کشٹ سے آزاد زندگی گزارنے لگی۔
ایک دن شیر بھوکا تھا اور جنگل میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور لومڑی پر جھپٹا ، اس کی فریاد اور مدد کے لئے پکار پر دھیان دئیے بغیر وہ اسے چٹ کر گیا۔ شکم بھر جانے پر وہ دریا پر گیا ، اپنے پنجے دھوئے، دانت صاف کئے اور شاخوں بھرے ایک درخت تلے لیٹ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور نیند کے مزے لینے ہی لگا تھا کہ الو کے شور سے خوفزدہ ہو کر اچھل پڑا۔ الو کہہ رہا تھا؛ “ شیر مرنے لگا ہے۔۔۔ شیر مرنے لگا ہے۔۔۔۔”
شیر کو تب احساس ہوا کہ اس سے کیا کر ڈالا تھا۔ وہ گہرے پچھتاوے میں ڈوب گیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اگلے روز مر جائے گا جیسا کہ لومڑی نے کہا تھا۔ لیکن وہ نہ مرا۔ اس کی زندگی چلتی رہی اور وہ لومڑیوں اور ان تمام جانوروں کا شکار کرتا رہا جو طاقت میں اس سے کمتر تھے۔’’
******
حلم الملك
بادشاہ کا خواب
حاکم وقت نے رات کو خواب دیکھا کہ وہ کسی بڑے باغ میں چل رہا ہے اتنے میں ایک بہت بڑا درخت اس کے اوپر آ گرتا ہے اور اور وہ مر جاتا ہے۔ خوف کی حالت میں نیند سے جاگا اور اس وقت کے تین بڑے خواب کی تعبیر بتانے والوں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی۔
پہلے نے کہا: آپ کے ملک میں باغات کی کثرت ہوگی اور بیرونِ ملک لکڑی بیچنے سے آپ کو کثیر زر مبادلہ حاصل ہوگا۔
دوسرے نے کہا: یقینا آپ کے دشمن آپ کے خلاف جادو کا سہارا لیں گے، اور اس نے جادوکا تعویذ کسی درخت کے نیچے دبا دیا ہے، لہذا اس کو ڈھونڈنا ہوگا اور تلف کرنا ہوگا۔
تیسرے نے کہا: یہ کوئی مشکل خواب نہیں ہے، یہ آپ کو تنبیہ کرنے کے لیے خواب ہے اور اس میں واضح طور پر بتایا جار رہا ہے ۔
حاکم نے غصے سے پوچھا کیا بتایا جار ہا ہے؟
خواب کی تعبیر کرنے والے نے بتایا: ہمارے محترم حاکم صاحب کی موت کسی درخت کے گرنے سے ہو گی۔
حاکم نے خاموشی اختیار کی ۔ گویا اس تیسرے کی بات اس کے دل کو لگی تھی۔ حاکم نے فورا حکم دیا کہ مملکت میں موجود تمام درخت کاٹ دیے جائیں۔ لہذا سارے درخت کاٹ دیے گئے۔ کوئی ایسا درخت نہیں رہا جہاں پرندے اپنا گھونسلا بنا سکے ۔ لہاذا سارے پرندے بھی ہجرت کر گئے۔
ایک اور رات حاکم وقت نے ایک اور خواب دیکھا کہ کہ وہ ایک بہت بڑے باغ میں ہے لیکن اس میں کوئی درخت نہیں۔ وہ نہر کے کنارے چل رہا ہے ، اتنے میں ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور حاکم وقت نہر میں گر جاتا ہے۔ ارد گرد موجود سارے لوگ تماشہ دیکھ رہے ہیں اور کوئی حاکم کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔
جب حاکم نیند سے بیدار ہوا تو بہت غصے میں تھا۔ اس تیسرے شخص کو بلا کر خواب کی تفسر پوچھی۔ تفسیر کے مطابق اب حاکم کی موت نہر میں گرنے سے واقع ہونی تھی۔
حاکم نے کہا: میں کسی نہر میں گر کر نہیں مروں گا جب میری مملکت میں کوئی نہر ہی نہیں ہوگی۔ لہذا حکم دیا مملکت کے سارے نہر ختم کردیے جائیں۔
حاکم نہایت اطمئنان کے ساتھ اپنے عرش پر براجمان ہوا۔ اس کو کوئی پروا نہیں تھی کہ اس کی مملکت صحراء بن چکی تھی۔
******
صامتون
خاموش آدمی
زہیر صبری ایک عورت سے ملا۔ ہری شاخ پر کھلے سرخ پھول کی طرح خوبصورت عورت نے زہیر کو تھرتھراتی آواز میں کہا، “میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تمہارے سوا کبھی کسی کو چاہ نہیں سکتی۔”
مگر زہیر نے کہا، “مجھے صرف اپنے مستقبل کی پروا ہے۔”اور زہیر کو گردن پر ایک تکلیف دہ تھپڑ پڑا۔ اس نے چونکتے ہوئے ارد گرد دیکھا مگر تھپڑ مارنے والا نظر نہ آیا۔
زہیر کو دوبارہ تھپڑ پڑا جب اس نے ایک امیر آدمی کی خوش آمد کی کہ “وہ اس ملک میں سامنے آنے والا عظیم ترین آدمی ہے۔”لیکن اس بار بھی مارنے والا نظر نہ آیا۔
زہیر کو تیسری بار چانٹا تب رسید ہوا جب زہیر نے ایک باریش آدمی کا احترام سے ہاتھ چوما اور دعا کی التجا کی۔مگر کس نے اس کا منہ لال کیا، اس دفعہ بھی کچھ پتا نہ چلا۔
زہیر کو روزانہ کئی مرتبہ تھپڑپڑے مگر اسے مارنے والا کبھی نظر نہیں آ سکا اور اس نے کسی سے ان خفیہ تھپڑوں کے متعلق بات بھی نہ کی کہ کوئی یقین نہیں کرے گا اور الٹا اسے پاگل ٹھہرایا جائے گا۔ اسے پورا یقین تھا کہ ہرکسی کو اس کی طرح تھپڑ پڑتے ہیں اور وہ بھی خاموش رہتے ہیں۔
******
لماذا سكت النهر؟
دریا کی خاموشی
اگلے وقتوں کی بات ہے کہ دریا باتیں کرتا تھا اور اسے بچوں سے گفتگو کرنا بہت پسند تھا جو پانی پینے اور ہاتھ منہ دھونے آتے تھے۔ وہ مذاق کرتا، ’’کیا زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے یا سورج زمین کے اطراف گھومتا ہے؟‘‘ دریا درختوں کو اپنا پانی دے کران کے پتے ہرے کرتے ہوئے خوش رہتا،وہ گلابوں کو فراخ دلی سے پانی دیتا تاکہ وہ مرجھا نہ جائیں اور وہ پرندوں کو ہجرت سے پہلے طاقت کے لئے پانی پینے کی دعوت دیتا تھا۔ وہ پیاس بجھانے کے لئے آنے والی بلیوں سے اٹھکیلیاں کرتا، ان پر چھینٹے اڑاتا اور بلیوں کے پانی سے نکل کر خشک ہونے کے لئے زور زور سے ہلنے جلنے پر مسکراتا تھا۔
پھر ایک دن جذبات سے عاری چہرے والا آدمی آیا جس کے پاس تلوار تھی ۔ اس نے بچوں، درختوں، گلابوں، پرندوں اور بلیوں کو دریا سے پانی نہ لینے دیا اور کہا کہ یہ دریا صرف اس کا ہے۔ دریا کو غصہ آیا اور وہ چلایا،
’’میں کسی کی ملکیت نہیں۔‘‘
ایک عمر رسیدہ پرندہ بولا، ’’کوئی جان دار دریا کا سارا پانی اکیلے نہیں پی سکتا۔‘‘
لیکن تلوار والے آدمی نے دریا کے چلانے اور پرندے کے الفاظ پر توجہ نہ دی ، وہ بے ڈھنگی اور کرخت آواز میں بولا، ’’جودریا سے پانی پینا چاہتا ہے، اسے سونے کا ایک ٹکڑا دینا پڑے گا۔ ‘‘
پرندوں نے کہا، ’’ہم تمہارے لئے انتہائی مسحور کن گیت گائیں گے۔‘‘
آدمی بولا، ’’مجھے سونا چاہیے ، موسیقی نہیں۔‘‘
درختوں نے صدا دی، ’’ہم تمہیں اپنے پہلے پہلے پھل دیں گے۔‘‘
آدمی نے کہا، ’’میں تمہارے پھل کھا لوں گا جب میرا جی چاہے گا، مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
گلابوں نے بتایا، ’’ہم تمہیں اپنا سب سے خوبصورت گلاب دیں گے۔‘‘ آدمی نے مضحکہ اڑایا، ’’اور کیا ایک خوبصورت گلاب اچھا ہے؟‘‘
بلیوں نے کہا، ’’ہم تمہارے لئے پیارے پیارے کھیل کھیلیں گی اور رات کو تمہاری پہرہ داری کریں گی۔‘‘ آدمی بولا، ’’مجھے تمہارے کھیلوں سے نفرت ہے اور میری تلوار ہی اکلوتی پہرے دار ہے جس پر میں اعتماد کرتا ہوں۔‘‘ بچوں نے کہا، ’’تم جو کہو گے ہم وہی کریں گے۔‘‘ آدمی نے جواب دیا، ’’تم کسی کام کے نہیں، تمہارے پاس طاقتور بازو نہیں۔‘‘
اس پر وہ سارے پریشان اور غمزدہ ہو گئے مگر آدمی بولتا رہا، ’’اگر تم دریا سے پانی پینا چاہتے ہو تو مجھے سونا دو۔‘‘ ایک ننھا پرندہ بہت پیاسا تھا، وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے دریا سے پانی پینے کا خطرہ اٹھا لیا جس پر آدمی لپکا، پرندے کو پکڑا اور اپنی تلوار سے قتل کر دیا۔ گلاب روئے۔درخت روئے۔پرندے روئے۔بلیاں روئیں اور بچے روئے۔ ان میں سے کسی کے پاس سونا نہیں تھا اور ان میں سے کوئی بھی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن تلوار والے آدمی نے اُنھیں دریا سے پانی نہ پینے دیا۔ گلاب مرجھا گئے۔ درخت سوکھ گئے۔ پرندے اڑ گئے۔ بلیاں اور بچے بھی چلے گئے۔
دریا غصے میں تھا اور اس نے کبھی نہ بولنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جلد ہی وہ آدمی آئے جو بچوں ، بلیوں، گلابوں ،درختوں اورپرندوں سے پیار کرتے تھے۔ اُنھوں نے تلوار والے آدمی کو ہمیشہ کے لئے بھگا دیا اور دریا دوبارہ آزاد ہو گیا ہر کسی کو اپنا پانی دینے کے لئے مگر وہ خاموش رہتا ہے۔ وہ تلوار والے آدمی کی واپسی کے ڈر سے لرزتا رہتا ہے۔
******
دوسرا گھر
خالد الحلب نے درشت جج کے سامنے دوپہر تک ذلت آمیز انتظار کو بھولنے کا انتظام کیا۔ جج نے اسے کرایہ کا مکان خالی کرنے کا حکم دیا تھا جس میں خالد بچپن سے رہ رہا تھا۔ وہ اس وقت عاجزی اور مسرت سے بھر گیا جب اس نے دوپہر کی نماز کے بعد کسی کو کہتے سنا کہ جنت تمام ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
خالد گھر لوٹتے وقت اپنے ساتھ کدال اور بیلچہ لایا اور دالان میں لکڑی کی کرسی پر بیٹھی اپنی ماں کے قدموں کے نیچے کھدائی شروع کر دی۔ ماں کی چیخیں کسی طرح رکنے کا نام نہ لے رہی تھیں مگر خالد کئی گھنٹے کھودتا رہا لیکن جب اسے سِلی مٹی کے سوا کچھ نہ ملا تو اس نے غصے کے ساتھ کدال اور بیلچہ پرے پھینک دیا۔
اس نے ماں کو میٹھی چائے کی پیالی دی جس میں نیند لانے والا برادہ انتہائی مقدار میں ملا ہوا تھا۔ خالد کی ماں چند منٹ کے اندر سو گئی تو خالد نے کھودے ہوئے گڑھے میں ایک قالین اور دو تکیے رکھ دیئے۔ اس نے ماں کو اٹھایا اور قالین پر لٹا دیا۔ پھر وہ تھکاوٹ سے ہانپتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا، بچی ہوئی چائے پی اور ماں کے ساتھ گڑھے میں لیٹ گیا۔ خالد نے ماں کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور آنکھیں بند کر کے قبر کا اندھیرا فوری چھانے کی دعا شروع کردی۔۔۔
[مندرجہ بالا کہانی Another Home زکریا تامر کی کتاب الحصرم Sour Grapes مطبوعہ 2000ء میں شامل ہے]
******
دسویں دن کے شیر
ایک دفعہ کا ذکر ہے کچھ شیروں کو جنگل سے پکڑ کر لایا گیا۔ سدھانے والے نے پہلے ہی دن، پُرسکون اور تحکم بھرے انداز میں لوگوں کو دکھایا کہ یہ مہان جانور جو جنگل کا شیر کہلاتا ہے، ذرا دیکھیے تو! کتنا خود سر جانور ہے۔ دیکھنے والوں نے پنجرے میں قید شیر کو غصے سے بپھرا دیکھا۔ سدھانے والے نے اُن سے محض دس دن مانگے۔ اُس نے ابتداء میں شیر کو بہت کچھ کھانے کو دیا۔ پھر ہر بار کھانا دینے سے قبل اپنی شرائط پیش کرتا گیا۔
پہلی بار اُس نے شیر سے کہا تمہیں بس اتنا کرنا ہے جب میں کہوں رک جاؤ تو رُک جانا اور جب کہوں چل پڑو تو چل پڑنا۔ شیر نے اِسے معمولی سا کام جانا۔ ایسی چند مشقوں کے بعد چوتھے دن سدھانے والے نے شیر سے بلی جسیی آواز نکالنے کی فرمائش کی، شیر نے اسے بھی معمولی بات جانا۔ مفت کی تواضع، عزت اور خیال کے بدلے یہ سودا مہنگا نہ تھا۔ چھٹے دن اُس سے گدھے کی آواز نکالنے کی فرمائش کی گئی۔ جسے اُس نے تھوڑی حیل و حجت سے قبول کیا اور پھر اُس میں اُسے مہارت حاصل کرائی گئی۔
آٹھویں دن شیر کو تواضع کے بدلے، ہر اُلٹی سیدھی بات کے جواب میں، سر ہلانے اور تالیاں بجانے کی فرمائش کی گئی۔ معمولی سا کام تھا، سوتعمیل ہوئی۔ دسویں دن جب شیر سرکس کے تمام گُر سیکھ گیا تو اُس کا کھانا اور تواضع سب بند کر دی گئی اور اُس کے آگے گھاس ڈال کر، اُس سے اُس کا مرتبہ اور شناخت سب چھین لی گئی۔
******
اندھا
شیخ محمود نے نوجوان شاگردوں کو کھڑکی سے جھانک کر آسمان دیکھنے کے لئے کہا تو شاگرد کھڑکی کی جانب لپکے،اور شیخ محمود نے ان سے پوچھا۔
“تم نے آسمان پر کیا دیکھا؟”
“ایک جہاز۔” شاگردوں نے جواب دیا۔
“اچھی طرح دیکھو، اور کیا نظر آ رہا ہے؟” شیخ محمود نے سوال دہرایا۔
شاگردوں نے کہا، “ہمیں بادل کے چند ٹکڑے اورایک سورج نظر آیا۔”
شیخ محمود نے زور دے کر پوچھا،“تمہیں سورج، بادلوں اور جہاز کے علاوہ کچھ نظر آیا؟” تو شاگردوں نے دوبارہ آسمان کو دیکھا اور کامل یقین کے ساتھ بولے۔
“نہیں۔ سورج اور بادلوں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا اور اب جہاز غائب ہو چکا ہے۔”
شیخ محمود نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا، “تم سب بے کار ہو۔ میں اندھوں کو پڑھاتا رہا جنہیں کچھ نظر نہیں آتا۔”
جب ننھے منے شاگرد سکول سے نکل کر گلی میں چل رہے تھے، اُنھیں خیال آ رہا تھا کہ وہ اندھے بھکاری ہیں جنہوں نے بھیک کے لئے ہر در پر دستک دی مگر ان کے لئے کوئی دروازہ نہ کھلا، اوراُنھوں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا لیکن اُنھیں بادلوں اور سورج کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔۔۔
******
عجیب قیدی
بوڑھے قیدی کو قید سے باہر پھینک دیا گیا۔ وہ جیل میں ایک عرصہ گزار چکا تھا۔ اس کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنا عرصہ قید میں رہا۔ لہذا اس نے جلدی سے باہر قدم رکھا۔ اس کو کسی کا بھی انتظار نہیں تھا، کیونکہ اس نے بیوی کو پہلے ہی طلاق دے دی تھی اور اب وہ کسی اور کی بیوی تھی۔ اس کی اولاد اس کو نہیں پہچانتی تھی۔ اس کی ماں مر چکی تھی۔ اس کے بھائیوں کے ساتھ اس کے تعقات اچھے نہیں تھے۔ لہذا وہ اکیلے سڑک پر چلنے لگا۔ وہ بیک وقت خوش بھی تھا اور حزین بھی۔ اس نے دیکھا کہ باہر کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ یہ وہ دینا نہیں تھی جس کو وہ جانتا تھا۔
اس قیدی نے دیکھا کہ باہر درخت دوڑ رہے ہیں۔ وہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ان کی دوڑ شتر مرغ سے بھی تیز ہے۔ اس نے تعجب نہیں کیا اور سوچا کہ شاید ان درختوں کا تعلق زمین سے او راپنے جڑوں سے کمزور پڑ گیا ہے ۔ یا یہ کہ یہ درخت زندہ یا مردہ حالت میں بعض ایسے اداروں کو مطلوب ہیں جن کے پاس رحم کا مادہ نہیں پایا جاتا۔
اس قیدی نے دیکھا کہ کتے زندہ چیتوں کا گوشت کھا رہے ہیں، جبکہ چیتے آرام سے بیٹھے ہیں اور کوئی رد عمل نہیں کر رہے۔ اسے اس بات پر بھی تعجب نہیں ہوا کیونکہ چوہے اور چیتے میں کوئی فرق نہیں۔ چیتا صرف جنگل میں چیتا ہوتاہے۔ جب وہ جنگل چھوڑتاہے تو کتے اس سے بڑھ جاتے ہیں۔
اس قیدی نے دیکھا کہ کچھ دریا ہیں جو الٹا بہ رہے ہیں۔ ان دریاوںکی کوشس ہے کہ اپنی اصل اور چشمے کی طرف لوٹ جائیں۔ اس نے سوچا کہ یہ دریا بھی ان لوگوں کی نقل اتارنا چاہ رہے ہیں جو اس ظالم دنیا سے تنگ آکر ماوں کے پیٹ میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں ناکام ہوتے ہیں لیکن مایوس نہیںہوتے۔
اس قیدی نے دیکھا کہ کچھ مرد، عورتیں اور بچے ہیں کہ جو بری طرح سے ہنس رہے ہیں۔ ان کی ہنسی واقعی دل سے نکل رہی ہے۔ اس نے اس بات کی تصدیق نہیں کی اور سوچا کہ وہ خود شاید نیند کی حالت میں ہے اور وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے فقط ایک خواب ہے۔
اس قیدی نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جو جمایاں لیتے جا رہے ہیں، حالانکہ ان کے سامنے ہی ابھی ابھی ایک لاوا پھٹا ہے۔ وہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ سونے کے لیے جمائی ہے یا نیند سے اٹھنے کی جمائی ہے۔ چونکہ نیند میں جانے والا، نیند سے جاگنے والا اور اولاپرواہ شخص تینوں جمائیاں لیتا ہے۔
قیدی نے دیکھا کہ کچھ کچھوے ہیں جو ہوا میں ایسے اڑ رہے ہیں جسے کوئی شاہین ہو۔ اس کو تھوڑا سابھی تعجب نہیں ہوا۔ چونکہ زمانہ حاضر اڑنے کا زمانہ ہے، اس زمانے میںجہاز اڑے، گاؤں اور شہر اڑے، قومیں اور امتیں اڑیں۔
اس قیدی نے دیکھا کہ موچھے دار ، با رعب کچھ لوگ ہیں جو کچھ بلیوں سے ڈر رہے ہیں۔ ان کو خوف تھا کہ یہ بلیاں سیکیورٹی اداروں سے تعاون کرتی ہیں اور ہر بات ان تک پہنچاتی ہیں۔
قیدی نے دیکھا کہ کچھ گاڑیاں ہیں جو دوڑ رہی ہیں۔ وہ فورا ایک گاڑی کے سامنے آگیا تاکہ ایک ایسا تجربہ کر لے جو آج تک اس نے نہیں کیا۔
******
ہاتھی جنگل کا بادشاہ کیوں نہیں بنتا؟
ہاتھی جنگل کے جانوروں میں سب سے لمبا چوڑا ہوتا ہے۔ ہمارے والے ہاتھی کو بھی اپنی جسامت پہ بڑا ناز تھا۔ وہ سارا دن افریقہ کے سفاری پارک میں ادھر سے ادھر کودتا پھاندتا گھومتا رہتا۔ جہاں دل کرتا رک کے کسی بھی درخت کی نازک سی شاخ سونڈ میں دبا کے موڑتا، ذائقہ اچھا لگتا تو وہیں ٹھونس لیتا ورنہ پھینک پھانک کے آگے بڑھ جاتا۔ باقی سارے جانور اس سے پرے رہتے تھے۔ ان میں ایک بندر بھی تھا۔ بندر ہمیشہ ہاتھی کی حرکتیں نوٹ کرتا رہتا تھا۔ وہ دل و جان سے اس بات کو مانتا تھا کہ ہاتھی اپنی طاقت ایویں غلط جگہ پہ ضائع کر رہا ہے۔ ایک دن جب کھانا کھانے کے بعد ہاتھی آرام کر رہا تھا تو بندر اس کے پاس پہنچ گیا۔ ایک محفوظ فاصلے پہ رہتے ہوئے بندر نے ہاتھی کو آواز دی۔ ہاتھی نے سستی سے آدھی آنکھیں کھولیں اور پوچھا کہ بتاؤ کیا مصیبت ہے؟ بندر نے اسے سمجھایا کہ یار دیکھو تم اتنے ایکٹو ہو، طاقتور ہو، لمبے چوڑے ہو، سمجھدار بھی ہو، تم میں کوئی ایسی کمی نہیں جو تمہیں جنگل کا بادشاہ بننے سے روک سکے، پھر کیا وجہ ہے کہ تم درگزر سے کام لیتے ہو اور آج تک کبھی شیر کے مقابلے کا دعویٰ بھی نہیں کیا؟ ہاتھی سست سے انداز میں ہنسا اور کہنے لگا کہ وہ اور ہاتھی ہوتے ہوں گے میاں جو تمہارے بہکانے میں آ جائیں، مجھے میرے دادا نے پوری تفصیل سے بتایا تھا کہ شیر بادشاہ کیسے بنا، بس اس دن سے میں نے ایسا کچھ سوچنے سے بھی توبہ کر لی۔ بندر نے بہت سر کھایا تو ہاتھی نے یوں کہانی سنانا شروع کی۔
دادا مرحوم بتاتے تھے کہ ان کے زمانے میں سفاری پارک والوں نے ایک شیر کو شاہی تاج پہنانے کا سوچا۔ شیر بہت خوش تھا کہ بیٹھے بٹھائے موج ہو گئی۔ وہ ابھی لنچ ہی کر رہا تھا کہ سفاری والے اسے لینے آ گئے۔ شیر ہنسی خوشی پنجرے والی گاڑی میں سوار ہوا اور ان کے ساتھ چلا گیا۔ دو گھنٹے بعد شیر کو ایک بڑے سے پنجرے میں رکھ دیا گیا۔ اب شیر چونکہ آدھا لنچ چھوڑ کے اٹھا تھا تو بھوک کے مارے اس کا برا حال تھا۔ کوئی کھانا دینے نہ آیا۔ رات ہونے تک شیر زور زور سے دھاڑنے لگا۔ کسی نے خبر نہ لی۔ بھوک اور دھاڑنے کے بعد کمزوری سے شیر کو غش آ گیا اور وہیں سو رہا۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو پنجرے کے باہر سفاری والوں کا ٹرینر (جانوروں کو تربیت دینے والا) کھڑا تھا۔ اس نے شیر کو تازہ گوشت دکھایا۔ شیر غراتا ہوا اس کی طرف بڑھا لیکن آگے سلاخیں تھیں۔ ٹرینر نے شیر کو سمجھایا کہ پنجرے میں دوڑ کے چھ فٹ کی چھلانگ لگاؤ گے تو گوشت ملے گا۔ شیر ناراض ہو گیا۔ وہ سوچتا تھا کہ یار میں بادشاہ ہوں اور یہ گھٹیا آدمی بادشاہوں سے کس قسم کی حرکتیں کروا رہا ہے۔ بھوکا بیٹھا رہا۔ ٹرینر بھی شام کو تھک ہار کے چلا گیا۔ دوسرے دن صبح ٹرینر پھر موجود تھا۔ اس مرتبہ گوشت بھی ایسا تازہ تھا کہ خون کے قطرے تک ٹپک رہے تھے۔ اب شیر کے منہ میں پانی آ گیا۔ سوچنے لگا کہ یار بادشاہ بھی تو چھلانگ لگاتے ہی ہوں گے۔ کوئی بات نہیں، یہ بیچارہ ایک چھلانگ کے بدلے میں اتنا کچھ آفر کر رہا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ شیر پوری طاقت جمع کرکے پنجرے میں دوڑا اور چھ فٹ کی ایک چھلانگ لگا دی۔ ٹرینر نے گوشت اس کے آگے پھینکا اور چلا گیا۔ شیر نے خاموشی سے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور چین کی نیند لی۔
اگلے دن ٹرینر پھر تازہ گوشت کے ساتھ موجود تھا۔ شیر نے اسے دیکھتے ہی مارے جوش کے ایک کی بجائے دو چھلانگیں لگا دیں، دونوں آٹھ آٹھ فٹ لمبی چھلانگیں تھیں۔ سفاری پارک کا ٹرینر پاس بھی نہ آیا۔ شیر نے پوچھا کہ بھائی آج کھانا کیوں نہیں دیتے؟ کہنے لگا: ناچ کے دکھاؤ گے تو کھانا ملے گا۔ شیر باقاعدہ مائینڈ کر گیا، بھلا بادشاہ بھی کہیں ڈانس کرتے ہیں؟ تین دن تک یہی تماشا ہوتا رہا۔ چوتھے دن جب ٹرینر صبح آیا تو شیر نے سوچا کہ یار جنگل والی بات تو ہے نہیں، یہاں میں اکیلا ہوں، کیا ہوا جو تھوڑا ناچ لوں گا؟ شیر نے اگلے دونوں پنجے اٹھائے اور پچھلی دو ٹانگوں پہ اچھلنا شروع کر دیا۔ ٹرینر بڑا خوش ہوا۔ شیر کے آگے ڈبل لنچ سرو کیا، اسے شاباش دی اور چلا گیا۔ شیر نے پیٹ بھر کے کھایا، تھوڑی چہل قدمی کی اور سکون سے بیٹھ گیا۔ شام کو ٹرینر خالی ہاتھ آیا اور شیر کے آگے ایک چھوٹا سا صندوق رکھ کے حکم دیا کہ اس پہ کھڑے ہو جاؤ۔ شیر کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ وہ غصے میں آ گیا۔ کہنے لگا: بھاڑ میں گئی ایسی بادشاہت، تم دفع ہو جاؤ یہاں سے اور آئندہ اپنی منحوس شکل مجھے نہ دکھانا‘ بھلا جنگل کے بادشاہ بھی کبھی صندوقوں پہ کھڑے ہوئے ہیں؟ اور وہ صندوق جس پہ دو پاؤں رکھنے کی جگہ مشکل سے ہے؟ ٹرینر چپ چاپ چلا گیا۔
اگلے دو دن ٹرینر آیا نہ کسی اور بندے نے شیر کی خبر لی۔ شیر کب تک ناراض رہتا، بھوک سے الگ سر میں درد ہو رہا تھا۔ تیسرے دن شیر نے تنگ آ کے دھاڑنا شروع کر دیا۔ دوسرے منٹ ٹرینر وہاں موجود تھا۔ اس نے کوئی بات کیے بغیر باہر سے وہی صندوق پنجرے کے اندر سرکا دیا۔ شیر کو غصہ آیا ہوا تھا۔ وہ صندوق کی طرف جھپٹا اور ایک چھلانگ لگا کے چاروں پاؤں اس پہ جما دئیے۔ شیر خود حیران تھا کہ یہ کیسا شاندار سین ہو گیا ہے، کہاں دو پاؤں کی جگہ نظر نہیں آتی تھی کہاں جمپ مار کے چاروں پاؤں جما لیے۔ شیر اب خود بھی اپنی ٹریننگ سے مطمئن ہونے لگا تھا۔ اسے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ایک اچھے بادشاہ کا باقی جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے ان سب کاموں کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ وہ پورے ایک منٹ صندوق پہ کھڑا رہا۔ نیچے اترا تو اس نے دیکھا کہ بغیر مانگے تازہ ترین شکار کیا ہوا ہرن اس کے لیے موجود تھا۔
دادا مرحوم بتاتے تھے کہ اگلے دس دن تک شیر کو کھانا برابر ملتا رہا۔ شیر بھی کھا کھا کے دنبہ بن گیا۔ ٹرینر کوئی فرمائش بھی نہیں کرتا تھا۔ شیر کو حیرت ہوتی لیکن وہ کھا پی کے آرام سے سو جاتا۔ گیارہویں دن کھانے کی جگہ اس کے سامنے جنگلی گھاس پڑی تھی۔ شیر نے کہا: بھائی آپ بھول گئے ہیں، میں شیر ہوں۔ ٹرینر نے سرد لہجے میں بتایا کہ اب سے تمہاری خوراک یہی ہو گی۔ شیر غصے میں چیخ اٹھا، ابے پاگل ہو گئے ہو، یہ کیسا بادشاہ بنا رہے ہو مجھے، گھاس کون شیر کھاتا ہے، لعنت ہو تم سب پر… ٹرینر جا چکا تھا۔ ہاتھی کہانی سناتے سناتے چپ ہو گیا۔
بندر نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بندر نے کہا کہ اے جنگل کے سب سے لحیم شحیم جانور، بخدا تو روتے ہوئے شدید چغد دکھتا ہے‘ پھر بھی مجھے بتا کہ پیچھے اس امر کے وہ کون سی رمز ہے کہ جو پوشیدہ ہے؟ ہاتھی نے داہنے کان کو چھوتے ہوئے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا؛ “بس پھر وہ شیر بادشاہ بن گیا لیکن اس کو گھاس کی ایسی لت لگی کہ آخری دنوں میں دادا مرحوم کئی کئی دن فاقے سے رہتے تھے۔ وہ سفاری کی تمام تازہ گھاس چر لیتا تھا اور دادا مرحوم بس بادشاہ کو دیکھتے رہ جاتے تھے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے پھر سے ہاتھی کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ جب ہاتھی دل بھر کے رو چکا تو اس نے بندر کو بتلایا کہ ایک شاعر دنیا میں ایسا گزرا ہے جو پرندوں کو سمجھایا کرتا تھا کہ اے پرندو جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آنے لگے وہ رزق کھانے سے مرنا بہتر ہے۔ پرندے اس کی بات سمجھ گئے۔ جنگلی جانور بھی سمجھ گئے۔ ہم ہاتھیوں کو تو دادا مرحوم کی حکمت ہی کافی تھی۔ مسئلہ یہ ہوا کہ جب شیروں نے اس بات کو سمجھا تب تک دیر ہو چکی تھی۔ بادشاہ تو ہم سب سے زیادہ مجبور ہوتا ہے۔ شیر چونکہ بادشاہ ہے تو اسے وہ سب کچھ کرنا پڑے گا جو ہمارے سفاری پارک کے ٹرینر کہتے ہیں۔ نہیں کرے گا تو نہ رزق رہے گا، نہ پرواز رہے گی، جب یہ دونوں ہی جانے کا چانس ہو تو کسی ایک کم تر آپشن پہ گزارا کرنا ہی پڑتا ہے، سو وہی شیر کرتا ہے۔ تو بیٹا جب شاہی تاج پہننا ہو اور کرنا وہی ہو جو شیر کرتا ہے تو ایسی بادشاہی پہ حقے کا پانی۔ یہ کہہ کر ہاتھی نے ایک انگڑائی لی اور سونے کی تیاریاں کرنے لگا۔ بندر چپ چاپ اپنے درخت کی جانب چلا گیا۔
******
مجسمہ
ایک عمر رسیدہ عورت، جس کی کمر جھکی ہوئی تھی، باغ میں گئی جہاں سارے درخت ٹنڈ منڈ تھے۔ وہ کھردرے چہرے والے دراز قامت آدمی کے پتھر سے تراشے بڑے مجسمے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس آدمی کا دایاں ہاتھ ہوا میں یوں اٹھا ہوا تھاکہ احترام اور خوف آتا تھا۔ یوں معلوم دیتا تھا کہ وہ اپنے نظر نہ آنے والے عقیدت مندوں کوجو اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں، اپنی رحمت سے نواز رہا ہے۔
ضعیف عورت اس کے سامنے بے پناہ خوف زدہ تھی، اتنی زیادہ کہ اس کی ٹانگوں میں ضعف آ گیا۔ وہ اس آدمی کو نظروں سے پاش پاش کر دینا چاہتی تھی جس نے اس کے شوہر اور بیٹوں کو قتل کیا تھا مگر اس کی آنکھوں میں موجود یاسیت اور سدا کی عاجزی نے ایسا نہ ہونے دیا۔
تب بوڑھی اماں کو محسوس ہوا کہ وہ سکڑ رہی ہے اور وہ سکڑتی رہی یہاں تک کہ نہ رہی۔ اس کے ارد گرد موجود ہر شے، عمارتیں اور لوگ بھی اتنے سمٹے کہ غائب ہو گئے۔ کچھ باقی نہ رہا مگر سخت گیر آدمی کا مجسمہ اور پرندے جو اس پر گندگی پھیلا کر خوش ہوتے ہیں۔
[یہ کہانی Breaking-Knees زکریا تامر کی کتاب تکسیر رکب سے لی گئی ہے ]
******
تنہا عورت
عزیزہ ایک خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسے کالی بلیوں سے ڈر لگتا تھا ۔ وہ تب سے فکر مند تھی جب وہ شیخ سعید کے سامنے بیٹھی تھی ۔ اس کی سیاہ کالی اور انگارہ آنکھیں عزیزہ پر گڑھی تھیں جو اپنے بڑھتے ہوئے خوف پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ یہ خوف اس لئے بھی بڑھ رہا تھا کہ تانبے کی طشتری میں رکھے لوبان کی باس اُس کے نتھنوں میں گھس کر اُس کے جسم کو سن کر رہی تھی ۔
شیخ سعید نے کہا ؛ “ اچھا ، تو تم چاہتی ہو کہ تمہارا خاوند تمہارے پاس واپس آ جائے؟ ”
“ ہاں ، میں یہی چاہتی ہوں ” ، عزیزہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا ۔
شیخ سعید تاسف بھری آواز میں کہتے ہوئے مسکرایا ، “ اس کے گھر والے تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک اور شادی کرے ۔”
اس نے دہکتے کوئلوں والی تھالی میں مزید لوبان ڈالتے ہوئے کہا ؛
“ تمہارا خاوند تمہارے پاس آ جائے گا اور کوئی دوسری عورت اسے حاصل نہ کر پائے گی ۔”
اس کی آواز نرم اور سنجیدہ تھی جس سے عزیزہ کو سکون ملا اور اس نے طمانیت بھری ایک گہری سانس لی۔ شیخ کا چہرہ کھِل اٹھا ۔
“ لیکن میرا عمل سستا نہیں ہے ۔”، وہ بولا ۔
عزیزہ کا منہ نیچے لٹک گیا ۔ اس نے اپنی کلائی پر بندھے سونے کے بازو بند کو دیکھتے ہوئے کہا ، “ آپ جو چاہیں گے ، میں وہ دینے کے لئے تیار ہوں ۔”
شیخ نے دانت نکالے اور کہا ، “ تمہیں بس ذرا سا ہی کھونا ہو گا لیکن تمہیں تمہارا خاوند مل جائے گا ۔ کیا تم اس سے محبت کرتی ہو؟ ”
عزیزہ نے بھاری سانس کے ساتھ غصے سے کہا ، “نہیں ، میں اس سے محبت نہیں کرتی ۔”
“ کیا تم اس سے لڑی تھیں ؟ ”
“ میں اس کے گھر والوں سے لڑی تھی ۔”
“ کیا تمہارا سینہ تنومند ہے ؟ ”
“ مجھے کبھی کبھار یہ محسوس ہوتا ہے جیسے میرے سینے پر کوئی بوجھ ہے ۔”
“ کیا تمہیں پریشان کر دینے والے خواب آ تے ہیں ؟ ”
“ میں راتوں میں اکثر جاگ جاتی ہوں اور مجھے ڈر لگتا ہے ۔”
شیخ سعید نے اپنا سر کئی بار ہلایا اور بولا ، “ یقیناً ، تمہارے سسرال والوں نے تم پر جادو کیا ہوا ہے ۔”
عزیزہ کو خوف نے گھیر لیا اور وہ چِلائی ، “ میں پھر کیا کروں ؟ ”
“ ان کا جادو ختم کرنے کے لئے دس لیرات (شامی پاؤنڈ)کے برابر لوبان درکار ہو گا ۔”
عزیزہ کچھ لمحوں کے لئے خاموش رہی ۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر رکھا اور اپنے لباس میں سے دس لیرات نکالے ۔ اس نے یہ رقم شیخ سعید کو دی اور کہا، “ میرے پاس بس یہی ہیں ۔”
شیخ سعید اٹھا اور اس نے تنگ گھومتی ہوتی گلی میں جھانکتے ہوئے دونوں کھڑکیوں کے سامنے کالے پردے تان دئیے ۔ پھر وہ واپس آ کر تانبے کی اس تھالی کے سامنے بیٹھ گیا جس میں سفید راکھ پر انگارے دہک رہے تھے۔ اس نے اس میں کچھ اور لوبان ڈالا اور بولا؛ “ میرے بھائیوں، جِنوں ، تاریکی سے محبت کرو اور روشنی سے نفرت کہ ان کے گھر زیر زمین ہیں ۔”
باہر اس وقت دن ایسے روشن تھا جیسے کسی گوری عورت کا جسم ہو ۔ سورج کی پیلی شعاعیں گلی میں آگ برسا رہی تھیں جن میں ہجوم کی بڑبڑاہٹ کا امتزاج تھا۔ شیخ سعید کا کمرہ البتہ تاریک تھا اور اس میں خاموشی تھی ۔
“ میرے جِن بھائی مہربان ہیں ۔ اگر تم ان کی محبت پا سکو تو تم خوش قسمت ہو گی ۔ انہیں خوبصورت عورتوں سے پیار ہوتا ہے ۔ اپنا لبادہ اتار دو ۔”
عزیزہ نے اپنا کالا لبادہ اتار دیا جس کے نیچے سے ایک چست لباس میں اس کا گداز جسم شیخ سعید کے سامنے آیا ۔ شیخ نے پیلے دھبوں والی ایک کتاب سے مدہم اور پراسرار آواز میں کچھ پڑھنا شروع کیا ۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا ،
“ نزدیک آؤ ۔ ۔ ۔ اور یہاں لیٹ جاؤ۔”
عزیزہ لوبان والی طشتری کے پاس لیٹ گئی ۔ شیخ سعید نے اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اپنے عجیب وغریب الفاظ کا وِرد جاری رکھا ۔ پھر اس نے اچانک عزیزہ سے کہا؛ “ اپنی آنکھیں بند کر لو ، میرے جِن بھائی بس آتے ہی ہوں گے ۔”
عزیزہ نے آنکھیں بند کر لیں اور شیخ کی آواز تیز اور حکمیہ انداز میں ابھری؛ “ سب کچھ بھول جاؤ ۔”
شیخ کے ہاتھ نے اس کے ملائم چہرے کو چھوا ۔ اسے اپنے والد کا خیال آیا ۔ شیخ کا ہاتھ کھردرا تھا اور اس میں ایک عجیب بھی باس تھی ۔ یہ ایک بڑا ہاتھ تھا گو اس پر بہت سی جھریاں پڑی تھیں ۔ اس کی آواز بھی عجیب تھی ؛ یہ خاموش اور خاکی دیواروں والے کمرے میں آہستہ آہستہ اونچی ہو رہی تھی ۔
شیخ کا ہاتھ اب عزیزہ کی گردن پر تھا ۔اسے اپنے خاوند کا ہاتھ یاد آیا ؛ جوایک عورت کی طرح نرم اور ملائم تھا ۔ وہ اپنے باپ کی پرچون کی دکان پر کام کرتا تھا۔ اس نے کبھی بھی اس کی گردن کو سہلانے کی کوشش نہ کی تھی جبکہ اس کی انگلیاں اس کی رانوں کی جلد کو ہی ٹٹولتی رہتیں ۔
شیخ نے اب اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھ دئیے اور نرمی سے اس کی چھاتیوں پر پھیرتے ہوئے انہیں اس کے جسم پر اور بھی نیچے لے گیا ۔ اس کے ہاتھ سارے جسم کا طواف کرکے واپس اس کے سینے پر آ گئے ۔ اب ان میں نرماہٹ نہیں تھی اور وہ اس کی چھاتیوں کو بے دردی سے دبا رہے تھے ۔ عزیزہ نے آہ بھری ۔ اس نے مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں اور کمرے میں پھیلے دھویں کے مرغولوں کو گھورنے لگی ۔
شیخ سعید نے عزیزہ کے جسم سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے ۔ اس نے دہکتے انگاروں پر کچھ اور لوبان چھڑکا اور اپنا وِرد جاری رکھا؛ “ میرے جِن بھائی آ رہے ہیں ۔۔۔۔ وہ آ رہے ہیں ۔ ”
عزیزہ کا جسم ایک تیز جھٹکے سے لہرا گیا اور اس نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں ۔ شیخ اب ایک ایسی آواز میں بول رہا تھا جو عزیزہ کو دنیا کی پرلی طرف سے آ تی محسوس ہوئی ۔
“ میرے جن بھائیو! خوبصورت عورتوں سے پیار کرو۔ تم خوبصورت ہو اور وہ تم سے پیار کریں گے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جب وہ آئیں تو تم انہیں عریاں نظر آؤ۔ وہ تم پر کیا گیا سارا جادو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔”
خوفزدہ عزیزہ نے سرگوشی کی ،
“ نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔”
شیخ نے سختی سے جواب دیا ، “ اگر وہ تم سے پیار نہ کر سکے تو وہ تمہیں تکلیف پہنچائیں گے ۔”
عزیزہ کو اس بندے کا خیال آیا ، جسے اس نے گلی میں دیکھا تھا ۔ وہ بے ہوش ہونے سے پہلے زخمی جانور کی طرح چیخ رہا تھا ، اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں ہوا میں ادھر ادھر یوں ہل رہے تھے جیسے وہ ڈوب رہا ہو۔
“ نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں ”
“ وہ آ رہے ہیں ۔ ”
لوبان کی باس اور تیز ہو گئی ۔ عزیزہ اب زور زور سے سانس لے رہی تھی ۔ شیخ سعید چلایا ؛ “ آؤ ، بابرکت بھائیو ،آؤ ! ”
عزیزہ نے مدہم لیکن خوشی بھرے قہقہے اورایسے الفاظ سنے جنہیں وہ سمجھ نہ پائی ۔ اس نے محسوس کیا جیسے کمرے میں بہت سے بونوں جیسے لوگ موجود ہیں ۔ وہ بار بار کوشش کے باوجود بھی اپنی آنکھیں نہ کھول سکی ۔ اسے اس مخلوق میں سے ایک کی گرم سانس اپنے چہرے پر محسوس ہوئی ۔ ایک نے اس کے نچلے ہونٹ کو قابو کر رکھا تھا اور اسے چوسے جا رہا تھا ۔ اسے اپنی ننگی کمر کے نیچے قالین کھردرا لگنے لگا ۔ لوبان کا دھواں اکٹھا ہوا اور اس نے ایک آدمی کی شکل اختیار کر لی جس نے اسے بازوؤں میں سمیٹ رکھا تھا اورجو اپنے بوسوں سے اسے مدہوش کر رہا تھا ۔ جیسے ہی اس منہ نے اس کے ہونٹ چھوڑے اس کے خون میں ایک جنگلی آگ ابھری اور اس کے سارے جسم میں پھیل گئی ۔ عزیزہ ہانپتے ہوئے حرکت کرنے سے بھی ڈر رہی تھی ۔ پھر اس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اور اسے دھیرے دھیرے خوشی کے ایک انوکھے احساس کا تجربہ ہونے لگا ۔
’ وہ سفید تاروں ، گہرے نیلے آسمان ، پیلے میدان اور آگ اگلتے لال سورج کو دیکھ کر مسکرائی ۔ اسے دور بہتے دریا کے پانی کی آواز آئی لیکن یہ دریا زیادہ دیر دور نہ رہا ۔ وہ لطف سے ہنسی ۔ اداسی ایک ایسا بچہ تھا جو اس سے دور بھاگ رہا تھا ۔ اب وہ بلوغت پاچکی تھی ۔ ہمسائے کے بیٹے نے اسے گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں ، یہ شرمناک حرکت تھی۔ ویسی ہی جیسے نانبائی کے کارندے نے اسے ، اس وقت کچھ روٹیاں دیں جب وہ اپنے گھر کے دروازے میں کھڑی تھی ، پھر اچانک اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں میں سے ایک کی چُو چی مڑور ڈالی ۔ اسے درد ہوئی ، وہ غصے میں آئی لیکن مضطرب بھی ہوئی ۔ اس کا ہاتھ کہاں ہے ؟ آہ ، یہ یہاں ہے ۔ اس کا ہاتھ ایک بار پھر اس کے جسم کو چھو رہا تھا ۔ اپنی سہاگ رات کو وہ درد سے چِلا اٹھی تھی لیکن اب وہ چِلا نہیں رہی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں خون سے بھرا رومال لئے کھڑی ہے اور اس کے رشتہ دار اسے تجسس سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس کی ماں چِلا رہی تھی اوراس کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی ۔“ میری بیٹی سب سے زیادہ باعزت ہے ! ہمارے دشمنوں کو حسد سے مر جانا چاہیے ! ”
عزیزہ ، پھر سے خشک پیلے کھیتوں میں لوٹ آئی۔ اب بادل آسمان میں اوپر اٹھ چکے تھے اور سورج کی تپش اس کے نزدیک آ گئی تھی ۔ وہ گھومی ، مڑی اور بہہ گئی اور ۔ ۔ ۔ اوراس کا جسم تیز آگ سے جھلس گیا ۔ دہکتا سورج اس کے نزدیک آتا جا رہا تھا اور اس کی تپش اس کے خون میں گھستی جا رہی تھی ۔ عزیزہ نے ابال سے بچنے کی کوشش کی لیکن اسی لمحے بارش ہونے لگی اور اس کا سارا جسم کانپ کر رہ گیا ۔ ‘
کچھ دیر بعد شیخ سعید عزیزہ کے ننگے بدن سے دور ہٹ گیا اور کھڑکی کی طرف بڑھا ۔ اس نے پردے ہٹا دئیے ۔ کمرے میں دن کی روشنی کا سیلاب امڈ آیا جس نے عزیزہ کی سفید چمڑی کو اجلا دیا ۔
عزیزہ بے چین ہوئی ۔ اس نے آہستگی اور احتیاط سے آنکھیں کھولیں اور سورج کی روشنی کے اُجلے پن پر حیران ہوئی ۔ وہ اٹھ بیٹھی ۔ اسے خوف کا احساس ہو رہا تھا ۔ شیخ سعید نے کہا ، “ فکر نہ کرو میرے جِن بھائی جا چکے ہیں ۔”
تھکی ماندی اور شرمندہ عزیزہ جھکی بیٹھی رہی ۔ اس نے اپنے لباس کا کونہ پکڑا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دیر تک وہیں بِنا ہلے جلے ، آنکھیں بند کئے لیٹی رہے۔
شیخ سعید نے اپنے ہاتھ کی پشت سے منہ پونچھا اور اسے کہا ، “ ڈرو مت ۔ ۔ ۔ وہ جا چکے ہیں ۔”
اس کی آنکھوں سے آنسو جارے ہو گئے ۔ اس لمحے اسے گلی میں ایک ہاکر کی چیخ سنائی دی ۔ اسے ، اس کی چیخ کچھ ایسی لگی جیسے کوئی بندہ ، جو مرنا نہ چاہتا ہو ، رورہا ہو ۔ کچھ منٹوں بعد عزیزہ گھومتی تنگ گلی میں اکیلے چلے جا رہی تھی۔ اس نے امید بھری نظروں سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا ، لیکن وہاں پر کوئی پرندہ نہ تھا ۔ آسمان نیلا تو تھا لیکن خالی ۔ ۔
******
عربی ادیب ، قصہ گو اور مختصر افسانہ نویس |
زکریا تامر ۔1931ء-حال |
زکریا تامر کا شمار عربی ادب كے چند نامور قصہ گو حضرات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق سوریہ (شام) سے ہے۔ 87 سالہ زکریا تامر 2 جنوری 1931 ء کو شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئے۔ محض 14 برس کی عمر میں گھر کی معاشی ذمہ داریاں سر پر آپڑیں جس کی وجہ سے وہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے ۔ ابتداء میں وہ دن میں ایک لوہار کے پاس تالا چابی بنانے کا کام کرتے اور رات میں مختلف کتابیں پڑھتے لکھتے۔ رفتہ رفتہ ان میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور 1957ء سے انہوں نے شام کے مختلف رسالوں میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ شامی ادیب اور مجلہ شعر کے مدیر یوسف الخال نے زکریا تامر میں چھپے ادیب کو ابھارااور اور ان کی کہانیوں کی کتاب شایع کرنے میں مدد کی جس سے زکریاتامر کو ملکی سطح پر پہچان ملی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زکریا نے کئی ادبی اداروں میں ملازمت کی، وہ شام کے ادیبوں کی یونین کے صدر بھی رہے۔ زکریا تامر شام کی وزارت ثقافت اور وزارت اطلاعات میں ملازم رہے اور 1981ء میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔ عزبی زبان میں مختصر قصے لکھنے میں زکریا تامر کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی ننھی منی کہانیاں معنویت کے لحاظ سے بہت بڑی تسلیم کی جا چکی ہیں جو مختصر ہونے کے باوجود کئی پرتیں لیے ہوتی ہیں۔ وہ طنزیہ مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ ان کی کہانیاں جو دراصل فلیش فکشن کہلاتی ہیں، افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے ادب کے لئے بھی مشہور ہیں۔ افسانوں اور افسانچوں کے دس سے زائد مجموعوں ، طنزیہ مضامین کے دو انتخاب اور بچوں کے لئے لکھی گئی ان گنت کتابوں کے ساتھ وہ اب بھی مختلف رسائل اور فیس بک پر باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے قصے سخریت، طنز، اشارات اور کنایات سے بھرپور ہوتے ہے۔ اس کی بہت سی کہانیوں کی بنیاد لوک ادب پر ہے جسے وہ بہت مہارت کے ساتھ ما ورائے حقیقی (Surrealistic) انداز میں سیاسی و سماجی جبر اور ہر طرح کے استحصال کے خلاف احتجاج کے لئے برتتا ہے ۔ زکریا تامر کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ان کی کہانیاں کئی ممالک میں بطور نصاب بھی پڑھائی جا رہی ہیں۔ |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں