انگریزی  ادب سے ایک پراسرار کہانی 

پیرس کی کالی بلا

دسمبر 1832ء  یعنی انیسویں صدی کی ابتداء     میں پیرس  میں ایک پراسرار وبا پھوٹی ،  جو بھی اس وبا کا شکار ہوتا تھا، اسے قے پر قے ہوتی تھی۔ اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا تھا اور وہ دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے نتیجے میں لاکھوں  افراد ہلاک ہوگئے،    لوگوں نے اسے کالی بلا  اور کالی موت کا نام دیا،  ماہرین اس کی کڑی چند برس قبل بنگال میں پھوٹنے والی ہیضے کی وبا سے جوڑ رہے  تھے، مگر میں جانتا تھا یہ وہی کالی بلا تھی جسے پروفیسر ہانس  اٹھارہ ہزار میل دور ہندوستان سے ایک خوبصورت ساتھی کے طور پر اپنے ہمراہ لائے تھے۔  اس  شہر سے اپنا انتقام لینے کے لیے ....قارئین کے لیے  بطور خاص ایک پراسرار کہانی 




پروفیسر ہانس ہمارے فلسفہ مابعد الطبیعات کے سرخ بال ، بھوری آنکھیں، پتلے پتلے تراشیدہ سے ہونٹ اور ان پر بھاری بھرکم مونچھیں۔ ان کے منفرد حلیے کی طرح ان کا انداز تدریس بھی منفرد تھا۔ ان کا طرز استدلالی حیران کن تھا اور ان کے دلائل کا سلسلہ اس سے کہیں زیادہ حیران کن تھا۔ پھر یہ بات اپنی جگہ تھی کہ وہ ایک بیک نہایت تمسخر انگیز انداز میں اپنی بات کا رخ بدل دیتے تھے۔ دوسروں کے نزدیک ان کا انداز کتنا ہی غیر فطری ہو، ان کے اپنے خیال میں یہ انداز ایسے ہی فطری تھا، جیسے ایک خاردار جھاڑی پر کانٹوں کا ہونا ایک بالکل فطری باتہے۔
یونیورسٹی کی تمام مسلمہ روایات کے برعکس پروفیسر ہانس ایک بڑی سی ٹوپی پہنتے تھے، جس میں ایک لمبا سفید پر آویزاں ہوتا تھا۔ ان کے جسم پر ایک لمبا کوٹ ہوتا تھا۔ پتلون خاصے چوڑے پائنچوں والی ہوتی تھی اور ان کے پیروں میں گھوڑ سواروں والے بوٹ ہوتے تھے۔ ان بوٹوں میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی مہمیزیں بھی لگی ہوتی تھیں۔
پروفیسر ہانس مجھ پر خاصے مہربان تھے اور اس مہربانی کے ناتے مجھ سے خاصے بےتکلف بھی تھے۔ ایک روز صبح ہی صبح وہ میرے کمرے میں آئے اور آتے ہی کہنے لگے ‘‘کرسٹن! میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ تم لوگوں کو اپنے لیے کسی اور استاد کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر میں یہاں سے پیرس چلا جاؤں گا۔’’
‘‘پیرس!’’ میں نے حیرانی سے کہا۔ ‘‘لیکن کس لیے جناب....؟’’
‘‘بحث و تکرار کے لیے تُو تُو میں میں کرنے کے لیے، لڑنے جھگڑنے کے لیے۔ مجھے کیا پتا بھلا....؟’’ انہوں نے اپنے شانے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
‘‘تو پھر یہیں رہیں جناب۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘یہ سارے کام تو یہاں بھی ہوسکتے ہیں، بلکہ ہوتے رہتے ہیں۔’’
‘‘تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن نہیں، یہاں بہت کچھ ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ میرے یہاں سے چلے جانے، بلکہ فرار ہوجانے کی نہایت معقول وجوہات ہیں۔’’
فرار کا لفظ سن کر میں چونکا، لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا، وہ اندر آئے۔ کمرے کے اندر آکر پہلے انہوں نےادھر ادھر جھانک کر یہ اطمینان کیا کہ میری اور ان کی گفتگو کو سننے والا کوئی اور شخص تو آس پاس موجود نہیں ہے۔ پھر وہ میرے بالکل قریب آکر راز دارانہ انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے بولے۔
‘‘تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج سویرے سویرے میں نے تین فٹ کی تلوار میجر کرانز کے پیٹ میں اتار دی ہے۔’’
‘‘آپ نے....؟’’ میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔
‘‘ہاں، ذرا خیال تو کرو۔ اس گدھے کو بھی یہ جرات ہوئی کہ کل شام بار میں موجود تمام لوگوں کی موجودگی میں میری مخالفت کرتے ہوئے یہ کہنے لگا کہ روح محض ایک خیالی چیز ہے۔ قدرتی طور پر میں نےا س کے سر پر ایک کرارا ہاتھ جڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں آج صبح ہم دونوں دریا کے کنارے ایک جگہ ڈوئل کے لیے گئے اور وہاں میں نے، میرا خیال ہے کہ روح کے ایک حقیقت ہونے کے حق میں اسے ایک ایسی دلیل دی ہے، ایسا ثبوت پیش کیا ہے، جو انتہائی زبردست قوت کا حامل ہے۔’’
میں سراپا حیرت بنا ان کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ چند لمحوں کی کاموشی کے بعد میں نے کہا۔
‘‘اور اب آپ پیرس جارہے ہیں....؟’’
’’ہاں۔ میں نے سہ ماہی کا سارا کام تقریباً ختم کرلیا ہے۔ صرف دو تین دن کا کام باقی ہے۔ اس کی کمی تم لوگ خود پوری کرسکتے ہو۔ میرے پاس اس وقت جو رقم ہے، وہ سفر کے لیے کافی ہوگی، لیکن میں اس معاملے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرسکتا۔ تم جانتے ہی ہو کہ ڈوئل کے خلاف قوانین کتنے سخت ہیں۔ میں کم سے کم دو تین سال کے لیے ضرور سلاخوں کے پیچھے چلا جاؤں گا اور تم جانتے ہی ہو کہ مجھے کھلی فضا کتنی زیادہ عزیز ہے۔’’
پروفیسر ہانس میرے قریب میز کے  پاس بیٹھے مجھے یہ سب کچھ بتا رہے تھے انہوں نے میجر کرانز کے ساتھ اپنے مقابلے یا جھڑپ کی کچھ اور تفصیلات مجھے بتائیں اور پھر مجھ سے میرا پاسپورٹ مانگا۔ انہیں معلوم تھا کہ میں حال ہی میں فرانس کا ایک چکر لگا کر واپس آیا ہوں۔ وہ کہنے لگے۔
‘‘یہ ٹھیک ہے کہ میری عمر تم سے آٹھ دس سال زیاددہ ہے، لیکن ہم دونوں کے بال سرخ ہیں اور ہم دونوں دبلے پتلے جسموں کے مالک ہیں۔ البتہ مجھے تمہارے پاسپورٹ سے کام لینے کےلیے اپنی بھاری بھرکم مونچھوں کو استرے کے حوالے کرنا پڑےگا۔’’
‘‘جناب!’’ میں نے سراسیمہ سا ہو کر کہا۔ ‘‘میں آپ کے لیے ہر وہ کام کرنے کو حاضر ہوں جو میرے بس میں ہو، لیکن آپ جو کچھ فرما رہے ہیں، اس کی تعمیل میرے لیے سراسر ناممکن ہے۔ یہ فلسفے کے ہر اصول، ہر تعلیم کے منافی ہے۔ میرا پاسپورٹ میز کی دراز میں پڑا ہے۔ کانٹ کی کتاب کے پاس۔ میں اب دریا کی طرف جا رہا ہوں سیر کے لیے۔’’
‘‘ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔’’ وہ بولے۔ مجھے تمہارے اصولوں کا علم ہے کرسٹن! وہ واقعی تمہارے شایان شان ہیں یہ اور بات ہے کہ میں خود ان سے متفق نہیں.... بہرحال بہتر ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو الوداع کہہ لیں۔ باقی کام میں خود کرلوں گا۔
چند گھنٹوں کے بعد شہر والے اس بات سے آگاہ ہوئے کہ یونیورسٹی میں مابعد الطبیعات کے استاد پروفیسر ہانس نے میجر کرانز کے پیٹ میں تلوار گھونپ کر اسے ہلاک کردیا ہے۔
شہر والے یہ خبر سن کر حیرت زدہ ہوگئے پولیس فوراً حرکت میں آئی۔ اس نے پروفیسر کی اقامت گاہ کی تلاشی لی۔ کئی دیگر جگہوں پر چھاپے مارے، مگر پولیس کی ساری بھاگ دوڑ ناکام رہی۔ قاتل گرفتار نہ ہوسکا۔
میجر کرانز کو پورے فوجی اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا اور پھر پورے چھ ہفتوں تک لوگوں کی زبانوں پر اس واقعے کا ذکر رہا۔ پھر جیسے آہستہ آہستہ لوگ سب کچھ بھول گئے۔ شہر والوں کی زندگی اپنے معمول پر آگئی۔ اب کسی کو شاید یاد بھی نہیں تھا کہ یونیورسٹی کے ایک معزز استاد نے ایک میجر کےپیٹ میں تلوار گھونپ کر اسے ہلاک کرڈالاتھا۔
اس واقعے کے پانچ ماہ بعد میرے قابل صد احترام انکل اور یونیورسٹی کے پروریکٹر نے مجھے ہدایت کی کہ میں پیرس جاکر مزید تعلیم حاصل کروں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں کسی روز پروریکٹر کی معزز مسند کے لیے ان کا جانشین ہوں۔ اس مقصد کے لیے وہ مجھے سائنس اور فلسفہ کا خود اپنے الفاظ کے مطابق انسائیکلوپیڈیا بنا دینا چاہتے تھے، میرے لیے وہ اس سے کم کسی مقام پر راضی نہیں ہوسکتے تھے۔
چنانچہ ان کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے اکتوبر 1831ء کے آخری دنوں میں پیرس کی طرف روانہ ہوا۔
دریائے سین کے دائیں کنارے ایک ویران سی مضافاتی آبادی واقع ہے۔ اس کے مکان کئی کئی منزلہ لیکن انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔ اس کی گلیاں کیچڑ بھری اور اس کے مکین خراب و خستہ حال ہیں۔
جیسے ہی کوئی شخص اس آبادی میں قدم رکھتا ہے، لوگ اسے دیکھنے کے لیے گلیوں کے کونوں پر رک جاتے ہیں۔ کچھ اپنے مکانوں کی کھڑکیوں سے گردنیں نکال نکال کرجھانکنے لگتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں حرص اور لالچ کی چمک ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ان کی نگاہیں نووارد کی جیبوں کی تہوں تک کی تلاشی لے رہی ہیں۔
اس آبادی کے سرے پر ایک تنگ سا مکان ہے، جو دوسرے مکانوں سے بالکل الگ تھلک ہے۔ اس کے گرد ایک قدیم اور خستہ حال چار دیواری ہے، جس کے سائے  میں ایلم کے پرانے درختوں کے سیاہ تنے اس کی خستہ حالی کو اور نمایاں کرتےہیں۔
اس مکان میں داخل ہونے کے لیے جو دروازہ ہے وہ خاصا نیچا اور محراب دار ہے۔ رات کے وقت اس دروازے کے اوپر ایک لالٹین روشن ہوتی ہے، جو لوہے کی ایک سلاخ سے لٹک رہی ہوتی ہے۔ اس سے اوپر چندھی آنکھوں جیسی تین کھڑکیاں ہیں، جن سے مدھم مدھم روشنی باہر آتی ہے۔ اس سے اوپر تین کھڑکیاں اور ہیں، پھر تین اور یہاں تک کہ چھٹی منزل آجاتی ہے۔
یہ تھا وہ مکان جس کی مالکہ شاہی رسالے کے ایک مرحوم برگیڈیئر کی بیوہ ماور جینتی تھی.... اور یہی تھا وہ مکان جس میں اپنے شہر کی ایک معزز شخصیت کی سفارش سے مجھے، میرے ٹرنک اور میری کتابوں کو پیرس میں رہنے کا ٹھکانہ ملا۔ اس معزز شخصیت نے میرے لیے اس  جگہ کی سفارش محض اس لیے کی تھی کہ ایک زمانے میں اسے خود بھی اس جگہ رہنے کا اتفاق ہوچکا تھا۔
معلوم نہیں میرے شہر کی اس معزز اور واجب احترام شخصیت نے یہ سفارش کرکے مجھے کس قصور کی سزا دی تھی، کیونکہ آج بھی جب میں اس مکان میں گزارے ہوئے دنوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ا س سے زیادہ واہیات جگہ میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ ساری سردیاں میں ایک چھوٹے سے آتش دان کے سامنے بیٹھا تھر تھر کانپتا رہتا تھا، کیونکہ یہ آتش دان آگ کی حرارت برائے نام اور دھواں خوب جی بھر کر دیتا تھا۔ ماور جینتی کا حریصانہ رویہ اس پر مستزاد تھا۔ اپنے کرایہ داروں سے کوڑی کوڑی ہتھیار لینے میں وہ ناقابل یقین حد تک سرگرم اور ثابت قدم واقع ہوئی تھی۔
مجھے وہ صبح آج بھی یاد ہے جب چھ مہینوں کے کہر، دھند، برف اور کیچڑ کے بعد سورج کی جھلک دکھائی دی تھی۔ سورج کی نرم نرم چمکیلی دھوپ دیکھ کر، میں جوش مسرت سے ایک بچے کی طرح چیخنے چلانے لگا تھا۔
میں  بیس بائیس سال قبل بلیک فارسٹ کے ہرے بھرے درختوں کو خیر باد کہہ کر حصول تعلیم کے لیے نکلا تھا، پیرس کی تنہائیوں اور اداسیوں میں مجھے بلیک فارسٹ کے ہرے بھرے درختوں اور انکے درمیان گاتی، گنگناتی، دوڑتی بھاگتی دوشیزاؤں کی یاد شدت سے آنے لگی تھی۔ میرا دل بھر آیا۔ میں نے اپنے آپ پر ضبط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بلیک فارسٹ کی شادابی و سرسبزی کی یاد نے مجھے دل کی گہرائیوں تک تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ میں  روتا رہا۔ دیر تک آنسو بہاتا رہا۔ پردیس کی تنہائیوں میں وطن کی یاد آدمی کو اکثر اسی طرح رلایا کرتی ہے۔
چند لمحوں بعد جب میری یہ کیفیت ختم ہوئی تو ایک نئی توانائی، ایک نئی امید اور ایک نئے حوصلے کے ساتھ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوگیا۔ میرے دل کو جیسے ایک نیا ولولہ مل گیا تھا۔ میرے وجود کو جیسے اک نئی زندگی.... توانائی سے بھرپور زندگی مل گئی تھی۔ میں ایک نئے جوش سے کام کرنے لگا۔ میں ہر حال میں اپنے انکل کو امیدوں اور توقعات پر پورا اترنا چاہتاتھا۔
لیکن پھر اچانک ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، جس نے مجھے آج تک غرق حیرت کر رکھا ہے اور اپنے تمام فلسفیانہ خیالات و نظریات اور منطقی تعلیم کے باوجود میں اس کی کوئی معقول اور قابل قبول توجیہہ کرنے سے قاصر ہوں۔ ایک دو مرتبہ نہیں، سینکڑوں مرتبہ میں نے اس پر ہر ممکن پہلو سے غورکیا ہے، لیکن اس غور و فکر کا کوئی فائدہ نہیں ہوا.... وہ عقدہ میرے نزدیک اس وقت بھی لانیحل تھا اور آج بھی لانیحل ہے۔
میرے کمرے کی چھوٹی سی کھڑکی کے عین بالمقابل  دو بلند و بالا مکانوں کے درمیان ایک خاصا کھلا قطعہ زمین تھا، جس پر جھاڑ جھنکار بڑی کثرت سے اگے ہوئے تھے۔ گرکھرو، بچھوا اور دیگر خار دار جھاڑیوں نےا س سارے قطعہ زمین کو تقریباً ڈھانپ رکھا تھا۔
اس سیلن زدہ احاطے میں چار پانچ درخت آلوچوں کے بھی تھے۔ سامنے کے رخ پتھروں کی بنی ہوئی ایک پرانی دیوار تھی۔ اس خراب و خستہ اور شکستہ حال دیوار پر ایک بورڈ نصب تھا جس پر مندرجہ ذیل عبارت درج تھی۔
‘‘یہ قطعہ زمین برائے فروخت ہے۔
خواہش مند حضرات موسیو تراگونوٹری سے رابطہ کریں۔’’
اس قطعہ زمین میں لکڑی کا بنا ہوا، شکستہ اور بوسیدہ سا ایک حوض تھا۔ جس میں اردگرد کے مکانوں کی نالیوں کا پانی آکر جمع ہوتا تھا۔ شاید خاردار جھاڑیوں کا یہ باغ اسی پانی سے سیراب ہوتا تھا۔ مکھیاں، مچھر اور سینکڑوں دیگر قسم کے کیڑے مکوڑے وہاں رینگتے اور اڑتے پھرتے نظر آتے تھے۔ سورج کی کوئی بھولی بھٹکی کرن اگر کبھی اس ‘‘باغ’’ پر پڑتی تھی تو یہ کیڑے مکوڑے سونے کے جیتے جاگتے ذرات کی صورت جگمگ کرنے لگتے تھے۔ ایسے میں دو بڑے سے مینڈک حوض سے باہر نکل کر ٹرانے لگتے تھے اور جب ٹراتے ٹراتے تھک جاتے تھے تو کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے انہیں سینکڑوں کے حساب سے اپنے تنور شکم کا ایندھن بنانے لگتے تھے۔
اس حوض کے عقب میں لکڑی کی بنی ہوئی سیلن اور کائی زدہ ایک چھت تھی۔ جس پر ایک بڑی سی سرخ بلی مٹر گشت  کرتی نظر آتی تھی۔ گاہےبگاہے وہ آلوچے کے درختوں کی شاخوں کے درمیان چہچہاتے ہوئے پرندوں کی آوازوں کی طرف متوجہ ہوتی تھی، لیکن پھر انہیں اپنی دسترس سے باہر سمجھتے ہوئے افسوس بھرے انداز میں اپنے پنجے ہلانے لگتی تھی۔
میری نگاہیں جب بھی اس جگہ کی طرف اٹھتی تھیں، خوف کی ایک انجانی لہر میرے سارے جسم میں دوڑ جاتی تھی۔  ایسے میں میرا ذہن فنا و بقا کے مسئلے کی آماجگاہ بن جاتا تھا۔ میں سوچتا۔
‘‘تمام زندگی.... تمام حرکت.... ہر ارتعاش.... بالآخر ختم ہوجاتا ہے۔ آخر زندگی اور ہستی کے اس ختم نہ ہونے والے سلسلے کا مبداء و منبع کیا ہے....؟ سورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے ذرے کے وجود کی حقیقت کیا ہے....؟ اس ستارے کی زندگی کا راز کیا ہے، جو خلا کی لامتناہی  وسعتوں میں، انسانی آنکھ سے اوجھل آوارہ  و خوار و زبوں، مسلسل گردش میں ہے....؟ اس بےحد و حساب، مسلسل، ابدی، کبھی ختم  نہ ہونے والے سلسلہ زندگی کی علت اولیٰ کیا ہے....؟ کن اصولوں کے مطابق ہستی ونیستی کے اس لامتناہی کھیل کی تشریح و تعبیر اور توجیہہ و وضاحت کی جاسکتی ہے....؟’’
اور میں اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھامے پہروں انہی خیالات میں کھویا رہتا تھا۔
تاہم جون کی ایک گرم دوپہر کو ایسا ہوا کہ جب میں کھڑکی کی سروں  پر اپنی دونوں کہنیاں ٹکائے اس قسم کے خیالات میں کھویا ہوا تھا، مجھے یوں لگا، جیسے سامنے دیوار کے پاس ایک غیر واضح سے وجود نے حرکت کی ہے۔ پھر اس دیوار کا پھاٹک کھلا اور کوئی شخص جھاڑیوں کے درمیان سے اپنا راستہ بناتا ہوا لکڑی کے شیڈ کے سائے میں پہنچ گیا۔
سب کچھ اردگرد کی بلند و بالا عمارتوں کے سایوں میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس لیے میں نے اسے محض اپنی نظروں کے دھوکے پر محمول کیا۔ تاہم اگلے دن صبح کے پانچ بجے جبکہ میں پانی کے حوض کی طرف دیکھ رہا تھا، میں نے واقعتاً ایک بلند قامت شخص کو شیڈ کے نیچے سے برآمد ہوتے دیکھا.... اس کے بازو  اس کے سینے پر بندھے تھے اور اس کی نگاہیں سیدھی میری کھڑکی کی طرف، بلکہ مجھ پر جمی تھیں۔
وہ اتنا لمبا تڑنگا تھا، اتنا دبلا پتلا تھا، اس کا لباس اس قدر میلا کچیلا تھا اور اس کی ٹوپی اس قدر بوسیدہ تھی کہ میں اپنے دل میں  یہی سمجھا کہ بلاشک و شبہ یہ شخص کوئی چور اچکایا بدمعاش ہے، جس نے پولیس کی نظروں سے بچنے کے لیے اس ویران جگہ کو اپنا ٹھکانا بنا رکھا ہے اور جو رات کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں نکلتا ہے اور شاید بےگناہ راہگیروں کا گلا بھی گھونٹ دیتا ہے۔ 
مگر اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، جب اس شخص نے سلام کے انداز میں سر سے ٹوپی اتاری اور چلایا۔
‘‘ہیلو! گڈ ڈے کرسٹن! گڈ ڈے!’’
میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میں بےحس و حرکت کھڑا رہ گیا۔ اس شخص نے خار دار جھاڑیوں کے باغ کو عبور کیا۔ دیوار کا پھاٹک کھولا اور گلی میں آگیا، جو اس وقت بالکل خالی تھی۔
تب میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا  ڈنڈا ہے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میرے اور اس کے درمیان خاصا فاصلہ حائل ہے۔ ورنہ کون جانے کب کیا ہوجاتا!
لیکن یہ بات مھے حیران کیے دے رہی تھی کہ وہ مجھ سے، میرے نام سے کیسے واقف تھا....؟ مجھ سے اسے کیا کام تھا....؟
جیسے ہی وہ گلی میں میری کھڑکی کے مقابل آیا، اس نے اپنے دبلے پتلے بازو ایک التجا آمیز انداز میں اوپر اٹھا دیے۔
‘‘نیچے آؤ کرسٹن!’’ وہ تقریباً چلایا۔ ‘‘نیچے آؤ تاکہ میں تمہیں اپنے سینے سے لگا سکوں۔ دیکھو، مجھے انتظار نہ کرانا۔’’
میرا دل اس کی دعوت کو قبول کرنے پر قطعاً آمادہ نہ ہورہا تھا۔ پھر وہ یکا یک قہقہے لگانے لگا اور اس کی سرخی مائل مونچھوں کے نیچے اس کے چمکتے ہوئے سفید دانت نمایاں ہوگئے۔
‘‘اچھا!’’ اس نے کہا۔ ‘‘تم اپنے مابعد الطبیعات کے استاد پروفیسر ہانس کو بھی نہیں پہچان رہے....؟  تو کیا میں تمہارا پاسپورٹ تمہیں دکھاؤں۔ تب تمہیں یقین آئے گا....؟’’
پروفیسر ہانس! کیا واقعی....؟ کیا یہ پچکے ہوئے گالوں اور اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں والا شخص میرا وہی واجب الاحترام استاد ہے....؟ کیا جسم پر چیتھڑے لٹکائے ہوئے یہ شخص ہی پروفیسر ہانس ہے....؟
تاہم کچھ دیر تک غور سے دیکھنے کے بعد میں نے پہچان لیا اور جب پہچان لیا تو میری آنکھیں ایک ناقابل بیان جذبہ ترحم  سے نمناک ہوگئیں اور میں نے چیخ کر کہا۔  ‘‘میرے محترم پروفیسر! کیا واقعی آپ ہیں....؟’’
‘‘ہاں میں ہی ہوں۔ نیچے آؤ کرسٹن! تاکہ میں تمہیں گلے لگا سکوں تاکہ ہم اطمینان سے بات کرسکیں۔’’
اب میرے جسم میں کوئی جھجھک، کوئی اندیشہ، کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ میں نیچے اترا اور دروازہ کھول کر گلی میں آگیا۔ پروفیسر ہانس نے آگے بڑھ کر مجھے اپنی باہوں کے حقلے میں لے لیا اور پھر محبت اور شفقت بھرے انداز میں مجھے اپنے سینے کےساتھ لگا کر زور سے یوں بھینچ لیا جیسے ایک ماں اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا کر زور زور سے بھینچتی ہے۔
‘‘استاد محترم!’’ میں نے آنسو بھری آنکھوں اور رندھے ہوئے گلے سے کہا ‘‘یہ میں آپ کو کس حال میں دیکھ رہا ہوں!’’
‘‘ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک ہے۔’’ انہوں نے جواب میں کہا ‘‘میرا لباس بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ یہ ضروری بھی ہے اور میری ضرورت کے عین مطابق بھی۔’’
’’یہ چیتھڑے آپ کی ضرورت کے مطابق کیسے ہوسکتے ہیں....؟’’ میں نے کہا ‘‘آئیے میرے کمرے میں چل کر لباس تبدیل کیجیے۔’’
‘‘کس  لیے....؟’’ وہ بولے۔ ‘‘میں اس لباس میں خاص دلکش نظر آتا ہوں۔ ہا ہا ہا!’’
‘‘آپ کو بھوک لگ رہی ہوگی۔’’
‘‘بالکل نہیں کرسٹن۔ بالکل نہیں۔ عرصہ ہوا میں نے ایک جگہ خرگوشوں کے سر اور مرغوں کے پیر کھائے تھے۔قحط کے دیوتا نے مجھے غضب کی تربیت دی ہے۔ اب میری تربیت اور آزمائش ختم ہوچکی ہے۔ میرے معدے کا وجود اب برائے نام ہے، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ میرا معدہ اب موجود کے بجائے معدوم ہے۔ اب وہ مجھ سے کوئی مطالبہ، کوئی فرمائش کرنا سراسر بےکار اور بےفائدہ ہوگا۔ اب تو مدت سے میں کچھ کھاتا ہی نہیں۔ کبھی کبھار میں دو چار کش لگا لیتا ہوں اور بس۔ کبھی مجھے قدیم ہندوستان کے ان ریشوں اور جوگیوں پر رشک آتا تھا، جو پہاڑوں کی گپھاؤں میں برسوں بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہتے تھے، مگر اب میری کیفیت بھی ان رشیوں اور جوگیوں جیسی ہی ہے۔’’
میں ان کی طرف یوں دیکھ رہا تھا، جیسے مجھے ان کی باتوں کا یقین نہ ہو۔ میری اس بےیقینی کو بھاپنتے ہوئے وہ کہنے لگے ‘‘تم حیران کیوں ہورہے ہو....؟’’ یاد رکھو پراسرار باطنی قوتوں کا مالک بننے کے لیے ہمیں ایسی کتنی ہی کڑی ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔’’
اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے پروفیسر ہانس مجھے اپنے ساتھ لیے قریبی پارک کی طرف بڑھ گئے۔ پارک کے دروازے پر متعین سپاہی نے ہمارے لیے دروازہ کھول تو دیا لیکن میرے استاد محترم کے خراب حلیے اور خراب تر لباس کو دیکھ کر شاید وہ متذبذب تھا کہ ہمیں پارک میں داخل ہونے کی اجازت دے یا نہ دے۔ تاہم پروفیسر ہانس نے اس کے تذبذب کو محسوس ہی نہیں کیا اور بڑے آرام اور اطمینان سے پارک میں داخل ہوگئے۔
پارک اس وقت تقریباً سنسان تھا۔ پارک میں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی تھا، جس میں مختلف جانوروں، پرندوں اور درندوں کے پنجرے تھے۔ جب ہم سانپوں کے پنجرے کے سامنے سے گزرے تو پروفیسر ہانس نے اپنے بھاری بھر کم ڈنڈے سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘یہ بڑی خوبصورت شے ہے کرسٹن! مجھے اس قسم کے سانپ ہمیشہ پسند رہے ہیں۔ ان کی یہ ادا مجھے بہت بھاتی ہے کہ یہ ہمیشہ رینگتے، سرسراتے رہتے ہیں۔ رکتے بھی ہیں تو محض کسی کو ڈنگ مارے کے لیے رکتے ہیں۔ کیا بات ہے ان کی!’’
پھر وہ ایک طرف کو مڑ گئے اور ایک بھول بھلیاں سی طے کرکے لبنانی صنوبر کے درخت کے پاس پہنچ گئے۔ درخت کے پاس پہنچ کر میں نے کہا ‘‘آئیے جناب! ہم یہاں اس درخت تلے بیٹھ جائیں۔’’
‘‘نہیں ہم اوپر پہاڑی  پر چل کر بیٹھتے ہیں۔ وہاں سے آدمی ارد گرد کا نظارہ کرسکتا ہے۔ مجھے پیرس کا نظارہ کرنا اور تازہ ہوا میں سانس لینا اس قدر پسند ہے کہ میں اکثر اس پہاڑی پر گھنٹوں بیٹھا رہتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں جہاں اس جگہ اکیلا رہتا ہوں لیکن تم جانو کرسٹن! ہر آدمی میں کچھ نہ کچھ بشری کمزوریاں ہوتی ہیں۔’’
ہم پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے۔ پروفیسر ہانس وہاں ایک بھاری بھرکم پتھر پر بیٹھ گئے۔ میں ان کے قریب ہی ایک دوسرے پتھر پر بیٹھ گیا۔
‘‘ہاں تو کرسٹن! تم یہاں کیا کر رہے ہو....؟’’ پروفیسر ہانس نے پوچھا اور پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ‘‘یقیناً تم پیرس یونیورسٹی اور سوربون کے شعبے کے نصابات کی تکمیل کر رہے ہوگے۔ ہا ہا ہا! مجھے معلوم ہے کہ دینیات، سائنس اور ادب کے علاوہ تمہیں مابعد الطبیعات سے شروع ہی سے بڑی دلچسپی ہے۔’’
‘‘نہیں جناب!’’ میں نے کہا۔ ‘‘کچھ زیادہ نہیں۔’’
‘‘ارے! مجھے پہلے ہی شک تھا۔ لیکن یہاں کا نصاب بھی کیسا واہیات ہے! کیسا واہیات ہے! اس کے ایک حصے کا تعلق صورت تصور کسی نہ کسی صورت ہی میں آتا ہے۔ ہا ہا ہا! اور دوسرا حصہ جوہر سے بحث کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جوہر تصور اصلی ہے۔ سمجھ رہے ہو کرسٹن! جوہر تصور اصلی ہے....؟  کیا کہنے ہے، ان عقل کے اندھوں کے۔ ان کی کھوپڑیوں میں کوڑا بھرا ہوا ہے، کوڑا اور ان کا، جو سرخیل ہے۔ وہ ایسا شخص ہے جو کسی امتیاز کا اہل نہیں۔ اس نے محض ایک بورڑوائی نظام تشکیل دے لیا ہے، جس کی کچھ شاخیں دائیں کو نکلتی ہیں، کچھ بائیں کو.... بالکل اس طرح جس طرح پتلیوں کے تماشے میں پتلیوں کے لباس ہوتے ہیں اور اس کاٹھ کے الو کو اہل فرانس نےجو مابعد الطبیعات میں خاصے ذی شعور واقع ہوئے ہیں۔ جدید دور کا افلاطون قرار دے ڈالا ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے یہ ! کتنا بڑا المیہ ہے یہ!’’
پروفیسر ہانس نے اپنے لمبے بازو پھیلاتے ہوئے مضطربانہ انداز میں ایک قہقہہ لگایا اور پھر نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے ‘‘آہ کرسٹن! تم کہاں آپھنسے ہو! جہاں علم کے نام پر جہالت کی گرم بازاری ہے۔ البرٹ گرینڈ، ریمنڈ لولی، راجربیکن، ارنا ڈوپسنیو اور پیراکیس کے عظیم نظریات کہاں گئے....؟ کائنات اصغر کو کیا ہوا....؟ وہ تین عظیم اصول۔ عقلی، سماوی، اساسی کہاں دفن ہوگئے....؟ آندرے کورنو، ہیگن اور بیسیوں  دوسرے لوگوں کی محنت کہاں گئی....؟ گلاسر ساگی اور دگوریو کے تجربات کا کیا بنا....؟’’
‘‘لیکن جناب!’’ میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔ یہ آخری تین نام جو آپ نے لیے ہیں، یہ نہ تو فلسفہ دان تھے اور نہ سائنس دان۔ یہ تو زہر پھیلانے والے لوگ تھے۔’’
‘‘زہر پھیلانے والے!’’ پروفیسر ہانس نے کسی قدر جوش سے کہا ‘‘نہیں وہ تو دور جدید کے عظیم ترین منجم اور ہیت دان تھے۔ زہر پھیلانے والے واقعتاً  زہر پھیلانے والے تو یہ لوگ ہیں، جو سوفسطائیت کی راہ پر چل رہے ہیں اور اس طرح علم کے نام پر جہالت کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بخارات کا دباؤ، برقی طاقت کا اصول، کیمیاوی تحلیل اور سائنس کے کتنے ہی دوسرے اصولوں کے ڈانڈے ان لوگوں کے علم سے جا ملتے ہیں، جنہیں کبھی منجم اور کبھی مسافر کہا جاتا رہا ہے اور پھر آج کے نفسیات اور مابعد الطبیعات کے ماہرین نے کیا دریافت کرلیا ہے، جسے مفید اور کارآمد کہا جاسکے....؟ انہوں نے کون سا تیر مارا ہے....؟ انہیں کسی بنا پر یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسروں کو جاہل کہیں اور اپنے آپ کو علم کے اجارہ دار سمجھنے لگیں....؟ بہتر ہے اس موضوع کو ہم یہیں ختم کردیں۔ اس سے میری طبیعت اور پراگندہ ہوتی ہے۔’’
اور پھر ان کا چہرہ جو اب تک ہرتاثر سے عاری تھا، یکایک ایک وحشیانہ تاثر کا حامل ہوگیا۔ وہ کہنے لگے! ‘‘سنو کرسٹن! تمہارے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔ یہاں سے اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔’’
‘‘کیوں....؟’’
‘‘اس لیے کہ انتقام کی ساعت آ پہنچی ہے۔’’
‘‘کیسا انتقام....؟’’
‘‘میرا انتقام۔’’
‘‘اور یہ انتقام آپ کس سے لینا چاہتے ہیں....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ساری دنیا سے۔ اس دنیا نے میرا تمسخر اڑایاہے۔ میرے عقائد و نظریات کی تکذیب کی ہے۔ مجھے احمق اور بےوقوف سمجھا ہے۔ اس دنیا نے سچ سے منہ موڑ کر جھوٹ کے آگے سر جھکایا ہے۔ یہ دنیا محسوسات کی غلام بنی ہوئی ہے اور اب اس کا حساب چکانے کا وقت آگیا ہے۔’’
وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نےسارے شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ ڈالی شہر کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں اور ان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ابھر آئی۔
دریائے سین میں کچھ کشتیاں تیرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں تھیں۔ پارک کی رونق بڑھ گئی تھی۔ سڑکوں پر گاڑیاں، سبزیاں، شراب کے پیپے اور دوسری اشیاء لے جا رہی تھیں۔ گایوں، بھیڑوں، بکریوں اور دوسرے جانوروں کے ریوڑ سڑکوں پر ایک قسم کا گرد و غبار کا طوفان پیدا کر رہے تھے۔ سارا شہر شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح زندگی کی بھنبھناہٹ سے معمور تھا۔ اس سے زیادہ عظیم الشان نظارہ آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا تھا۔
‘‘پیرس! اے شہر قدیم! اے شہر عالی شان!’’ پروفیسر ہانس طنز سے لبریز تلخ لہجے میں کہنے لگے۔ ‘‘اے مثالی پیرس! اے جذبات سے مملو پیرس! ذرا اپنے ذہن کو وا کر! دنیا اور کائنات کے کونے کونے سے ماکولات و مشروبات آتے ہیں تاکہ تیری حیوانی توانائی بحال رہے۔ کھا، پی اور گا.... اور اس سے زیادہ اور کسی بات سے سروکار نہ رکھ کہ یہی تیرا شیوہ، یہی تیرا وتیرہ ہے.... سارے فرانس کا خون نچڑتا ہے، تب تیرے چہرے پر لالی آتی ہے.... سارا فرانس اپنا خون پسینہ ایک کرکے تجھے آسودگی فراہم کرتا ہے.... کیا چاہیے تجھے....؟ وہ اپنی بہترین شرابیں، ریوڑ، شباب کی حدت سے تمتماتے ہوئے گالوں اور جگمگاتے چہروں والی خوبصورت لڑکیاں، اپنے تنو مند بیٹے، سب تیری نظر کردیتا ہے۔ اور بدلے میں کیا لیتا ہے تجھ سے....؟ خونی انقلاب! کھوکھلے نعرے! جذباتی اعلانات!’’
پروفیسر ہانس اسی طرح طنز آمیز انداز میں کہتے گئے۔ ‘‘پیارے پیرس! اے روشنیوں، اجالوں، تہذیبوں وغیرہ کے مرکز! اے قول محال کی ارض موعودہ! اے فلسطینوں کے آسمانی یروشلم! اے علم و ذہانت کے سدوم! اے شہوت اور دولت کے پجاریوں کے سب سے بڑے مرکز! تجھے اپنے مقدر پر ناز ہے۔ تو کھانستا ہے، سورج کانپنے لگتا ہے۔ تو بیدار ہوتا ہے، ساری دنیا میں زلزلہ آجاتا ہے۔ تو جما ہی لیتا ہے، یورپ نیند کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔ تیرے نزدیک روح مادی جسم میں مجسم شدہ قوت کے سوا اور کیا ہے....؟ کچھ نہیں! تو غیر مری قوتوں کا انکار کرتا ہے.... ان کا تمسخر اڑاتا ہے۔ لیکن دیکھ! عنقریب ان غیر مرئی قوتوں کا ایک ادنیٰ سا خادم تجھے مابعد الطبیعات کا وہ سبق دینے والا ہے، جسے تو کبھی فراموش نہیں کر پائے گا۔’’
بڑی دیر تک پروفیسر ہانس پیرس کو مخاطب کرکے اسی انداز اور اسی لہجے میں باتیں کرتے رہے اور مجھے شک ہونے لگا کہ شاید میرے محترم استاد کا دماغ چل گیا ہے۔  بھلا ایک ایسا شخص جس کا کوئی گھر تھا نہ گھاٹ وہ پیرس ایسے عظیم اور عظیم الشان شہر کا کیا بگاڑ سکتا تھا....؟
خاصی دیر تک پیرس کو دھمکیاں دینے کے بعد پروفیسر ہانس یکایک خاموش اور پرسکون ہوگئے۔ شاید اس کے لیے کہ کچھ لوگ چہل قدمی کرتے ہوئے ادھر آرہے تھے۔ وہ الٹے کھڑے ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ہم پارک سے باہر آگئے۔ چلتے چلتے پروفیسر ہانس کہنے لگے۔ 
‘‘کرسٹن! مجھے تم سے کچھ کام ہے۔’’
‘‘فرمائیے!’’
‘‘تم نے میرا ٹھکانا دیکھ ہی رکھا ہے۔ وہاں میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تم حلفاً اس امر کا اقرار کرو کہ میرے حکم کی پوری پوری تعمیل کروگے۔’’
‘‘میں اس کے لیے تیار ہوں جناب’’ میں نے کہا۔ لیکن میری ایک شرط ہے کہ....کہ....’’
‘‘اوہ، تم اطمینان رکھو!’’ انہوں نے میری بات قطع کرتے ہوئے کہا۔ ‘‘اس میں تمہارے ضمیر کے خلاف کچھ نہیں ہے۔’’
‘‘تو پھر میں وعدہ کرتا ہوں۔’’
‘‘یہی کافی ہے۔’’ وہ بولے۔ ‘‘میرے اطمینان کے لیے یہی کافی ہے۔’’
باتیں کرتے ہوئے ہم احاطے تک آگئے تھے۔ پروفیسر ہانس نے دروازہ کھولا اور ہم اندر چلے گئے۔
خاردار جھاڑیوں کے درمیان سے راستہ بتاتے ہوئے ہم لکڑی کی چھت کے نیچے پہنچے۔ شیڈ کے نیچے ایک کونے میں ہڈیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ ہڈیوں کے اس ڈھیر کو دیکھ کر مجھ پر خوف کی ایک ناقابل بیان کیفیت طاری ہوگئی۔ میرا سارا وجود لرز گیا۔ میں وہاں سے اڑ کر بھاگ جانا چاہتا تھا، لیکن پروفیسر ہانس برابر مجھے اپنی نگاہ میں رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے لکڑی کی دو بلیوں کے درمیان پڑے ہوئے ایک بڑے سے پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحکمانہ انداز میںکہا۔ ‘‘وہاں بیٹھ جاؤ۔’’
میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔
اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے مٹی کی بنی ہوئی ایک چلم نکالی اور اسی میں کوئی زرد زرو سی چیز بھر کر اسے سلگایا اور پھر آہستہ آہستہ اس کے کش لینے شروع کردیے۔ وہ میرے سامنے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئے۔ ان کا بھاری بھرکم ڈنڈا ان کے گھٹنوں کے درمیان تھا۔
‘‘کرسٹن!’’ وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔ جیسے جیسے وہ کش لگا رہے تھے، انکے چہرے کے عضلات میں ایک ناقابل بیان کھنچاؤ پیدا ہو رہا تھا، جن کے زیر اثر ان کے رخساروں کی جھریاں اور نمایاں ہورہی تھیں اور اس کے نتھنےسکڑتے جارہے تھے۔‘‘میری بات سنو کرسٹن! اس غرض کہ تم میرے کام آسکو اور اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے میرے ارادوں کی تکمیل کے قابل ہو سکو، یہ ضروری ہے کہ میں اپنے اسرار سے ذرا سا پردہ سرکا دوں۔ میری دنیا کے اسرار کسی حد تک تمہاری سمجھ میں آجائیں گے تو تمہارا کام آسان ہو جائے گا۔ تمہارا کام آسان ہوگا تو میرا کام بھی آسان ہوجائے گا۔’’
اب وہ خاموش ہوگئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ انکی پیشانی پر جیسے لاتعداد شکنیں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے ہونٹ یوں سختی سے بھنچے ہوئے تھے کہ ان کے گوشے دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے۔
خاصی دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے پھر کہنا شروع کیا۔ ‘‘ہاں! تمہارے لیے میرے ایک دو رازوں سے آگاہی بےحد ضروری ہے۔ میں تمہیں عالم اسرار کی ایک جھلک دکھانے لگا ہوں۔ سنو کرسٹن! اس دنیا میں یوں تو ایک سے ایک عجیب بات دیکھنے میں آتی ہے، لیکن اس دنیا کی عجیب ترین بات یہ ہے کہ کرۂ  زمین کا نصف اجالے میں اور نصف اندھیرے میں ہوتا ہے۔ آدھی دنیا میں ایک وقت دن ہوتا ہے اور آدھی دنیا اس وقت رات کی تاریکی میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے یا یوں کہہ لو کہ انسانوں کی آدھی تعداد سوتی ہے اور آدھی جاگتی ہے۔ تاہم فطرت نے روئے زمین پر کوئی چیز بےکار اور بےفائدہ نہیں بنائی۔ فطرت کا عملی تخلیق سادگی اور پرکاری کا شاہکار ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت اسی کا کرشمہ ہے۔ وہ فطرت جس نے یہ فیصلہ کیا کہ زندگی آدھے وقت سوئی رہے، اس کے ساتھ ہی اس نے یہ فیصلہ بھی کر رکھا ہے کہ ایک روح دو انسانوں کے لیے کافی ہے۔ یہ روح خیال کی سی سرعت کے ساتھ ایک نصف کرہ سے دوسرے نصف کرہ  میں پہنچ جاتی ہے اور اس طرح باری باری دو وجودوں کی حالت میں رہتی ہے۔  جب یہ روح کرہ ارض کے مقابل مقامات پر ہوتی ہے تو آدمی سو جاتا ہے، اس کی صلاحیتیں منتشر ہوجاتی ہیں اور اس کا مادی وجود آرام کرتا ہے۔ جب روح نامیاتی تشکیل کے عمل کی رہنمائی کا فرض سنبھالنے کے لیے واپس آتی ہے تو آدمی بیدار ہوجاتا ہے اور پھر اس کا مادی وجود روح کے احکام کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔’’
اتنا کچھ کہنے کے بعد وہ ذرا دم لینے کے لیے رکے۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔
‘‘میں اس بارے میں زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ ویسے بھی یہ ایسا مواد ہے، جو تمہارے فلسفے کے دائرے میں نہیں آتا، کیونکہ تمہارے نام نہاد پروفیسروں کے بارے میں یہ بات بدنامی کی حد تک عام ہے کہ وہ دانش مندوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے۔ لیکن میں نے جو کچھ تمہیں بتایا ہے، اس سے ان عجیب و غریب خیالات کی خود بخودد ترجیہہ ہوجاتی ہے، جو اکثر تمہارے دماغ میں آتے ہیں ۔ خوابوں کا انوکھا پن، وجدانی طور پر ان دیکھی دنیاؤں کی شناسائی اور دوسرے بہت سے ہزاروں مظاہر کی توجیہہ بھی اس سے ہوجاتی ہے۔ سکتہ، غشی بےہوشی، وجد، ادراک نفسی، غرض کہ نیند کی تمام حالتیں، تمام مظاہر خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہوں، سب قدرت کے اسی قانون کے تحت آتی ہیں۔ تم میری بات سمجھ رہے کرسٹن....؟’’
‘‘خوب سمجھ رہا ہوں جناب!’’ میں نے جواب دیا۔ ‘‘میرے لیے یہ ایک عظیم انکشاف ہے۔’’
‘‘اور یہ بھی سمجھ لو کہ یہ عالم اسرار کے ایک راز کی محض ہلکی سی جھلک ہے۔’’ وہ عجیب انداز سے مسکراتے ہوئے بولے۔ ‘‘یہ وہ سبق ہے جو اس راہ کے سالک کو آغاز ہی میں سکھایا جاتا ہے۔ لیکن اب ذرا اس اصول کے ان اثرات کی بات سنو جن سے میرا تعلق ہے۔ وہ روح، جو میرے جسم میں ہے، وہی روح مساوی طور پر یہاں سے بہت دور ہندوستان کی سرزمین پر سروہی کے علاقے میں کوہ آبو کے دامن میں رہنے والے ایک شخص کے جسم کو بھی زندہ رکھتی ہے۔ وہ اپنی سادگی کےلیے بھی مشہور ہے اور روشتی کے لیے بھی، عبادت کے لیے بھی مشہور ہے اور اپنی پراسراریت کے لیے بھی۔ میری طرح وہ بھی اسراریت کے راہ سلوک کے تیسرے مقام پر ہے۔ میں تو خالی خولی پروفیسر یا استاد مابعد الطبیعات کہلاتا ہوں، مگر اسے لوگ جوگی، رشی، منی مہاتما اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتے اور سمجھتے ہیں۔ جب وہ سوتا ہے، میں جاگ رہا ہوتا ہوں۔ جب وہ جاگتا ہے، میں سورہا ہوتا ہوں۔ تم سمجھ رہے ہونا....؟’’
‘‘جی ہاں’’ میں نے لرزتے ہوئے جسم کے ساتھ جواب دیا۔  میرے جسم کا رواں رواں کانپنے لگا تھا۔
‘‘ہاں تو میں تم سے جو کام لینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو کام میرے پیش نظر ہے، اس کی تحصیل و تکمیل کےلیے یہ ازبس ضروری ہے کہ میری روح مسلسل دو روز تک کوہ آبو کے دامن میں واقع ایک خاص غار میں رہے۔ میری روح کے وہاں قیام کرنے تک میرا جسم بےحس و حرکت رہنا ضروری ہے۔ میں اس وقت جس شے کے کش لگا رہا ہوں۔ وہ افیون ہے۔ میرے پپوٹے بھاری ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت بھی.... میری روح سفر کے لیے بالکل تیار ہے.... اگر دو دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے میں جاگنے لگوں تو سنو کرسٹن! اسی وقت مجھے افیون کی ایک اور خوراک دے دینا.... تم اس کا وعدہ کرچکے ہو.... تم نے وعدہ پورا نہ کیا تو....’’
انہیں اپنا جملہ پورا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ ایک دم مدہوش ہو کر لڑھک گئے۔
میں نے انہیں آرام سے اس طرح لٹا دیا کہ ان کا سر سائے میں تھا اور پیر جھاڑیوں کے قریب ان کےسانس کی حرکت کبھی تیز اور کبھی مدھم ہوجاتی تھی۔ اس سے مجھ پر مزید خوف طاری ہوگیا اور میرا جسم کانپنے لگا۔ انہوں نے اپنے عالم اسرار کی جو جھلک مجھے دکھائی تھی، وہی کچھ کم نہ تھی۔ اب جو مجھے یہ معلوم ہورہا تھا کہ ان کی روح ایک طویل فاصلہ طے کرکے آناً فاناً یہاں سے نہ جانے کہاں پہنچ گئی ہے، تو ایک پراسرار سا خوف میرے حواس پر چھانے لگا.... مجھے یوں لگا جیسے ایک دنیائے نامعلوم یکایک میری نگاہوں کےسامنے آگئی  ہے۔ میرے چہرے پر زردی چھا گئی۔ جسم میں نقاہت سی محسوس ہونے لگی۔ بغیر خواہش اور ارادے کے میری انگلیاں کانپنے اور مڑنے لگیں۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے میرے جسم کا سارا خون میرے دماغ کی طرف چڑھ گیا ہے اور اس کے جوش سے کسی بھی لمحے میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔
دوپہر کی شدید گرمی، ان بلند و بالا عمارتوں کے درمیان گرمی کی تپش، گندے پانی کے حوض سے اٹھتے ہوئے بدبو کے بھپکے، دونوں مینڈکوں کے مسلسل ٹرانے کی آوازیں، کیڑے مکوڑوں اور مکھیوں، مچھروں کی مسلسل بھنبھناہٹ یہ سب کچھ باہم مل کر میرے دل پر ایک خوف طاری کر رہا تھا.... جیسے جیسے دن گزرتا جارہا تھا.... میرا خوف پریشان کن حد تک بڑھتا جارہا تھا۔
جب بھی میری نظریں پروفیسر ہانس کے جھریوں بھرے، پسینے کے قطروں سے تربتر چہرے پر پڑتیں، ایک انجانا خوف میرے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ مجھے ایسے معلوم ہوتا تھا، جسے وہ کسی خوفناک جرم میں شریک جرم میں اور جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے اپنے وعدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے خوابیدہ جسم کو زور زور سے جھنجھوڑ  ڈالا، مگر ان کا جسم یا تو بےحس و حرکت ہی رہا یا کسی دوسری طرف کو لڑھک جاتا رہا۔ بعض اوقات ان کے سانس کے ساتھ ان کے منہ سے حیرت انگیز آوازیں آتی تھیں۔ بالکل ایسے جیسے کوئی سانپ پھنکار رہا ہو۔ پروفیسر ہانس کے بےحس و حرکت جسم کے پاس بیٹھے ہوئے میں ان کی بتائی ہوئی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا۔
یقیناً عالم اسرار کے راہ سلوک کے جن مقامات یا درجوں کا انہوں نے ذکر کیا تھا، ان میں سے پہلا مرحلہ حیوانی زندگی کے عرفان کا ہوگا، دوسرا مرحلہ روح اور اس کے عوامل کے عرفان کا اور تیسرا مرحلہ خود ذات باری کے عرفان کا ہو گا۔ لیکن کس انسان میں اس امر کا حوصلہ ہے یا ہوسکتا ہے کہ وہ نادیدہ قوتوں سے آنکھیں چار کرسکے یا ان کی توجیہہ و تشریح کا اِدّعا   کرسکے....؟
میں اسی قسم کی سوچوں میں کھویا رہا اور وقت گزرتا رہا۔ شام ہونے کو آئی تو میں نے پروفیسر ہانس کے بےحس و حرکت جسم کو اس کے حال پر چھوڑا اور اپنے کمرے کا  رخ کیا تاکہ خود بھی چند گھنٹے کی نیند لے سکوں۔ مجھے  یقین تھا کہ ان کا بےحس و حرکت جسم اگلے دن تک اسی پرامن اور سکون حالت میں رہے گا۔ اور واقعی اگلی صبح جب میں انہیں دیکھنے گیا تو ان کا جسم اسی حالت میں پڑا تھا۔ اب ان کا سانس قدرے باقاعدگی سے چل رہا تھا۔
وہ دن اور اس سے اگلی رات میں نے پہلے روز ہی کی طرح سوچ بچار کرتے اور تشویش و اضطراب کےعالم میں ڈرتے ڈرتے گزاری۔ دوسرے دن شام کے چھ بجے میں تھک کر چور ہوچکا تھا اور بےحد نقاہت محسوس کر رہا تھا۔ میں اٹھ کر ایک قریبی ہوٹل کی طرف گیا،تاکہ وہاں سے کچھ کھا پی کر تازہ دم ہوجاؤں۔ کوئی سات بجے تک میں ہوٹل والے کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہا۔ جب میں ہوٹل سے واپس ہوا تو یکایک مجھے اسے احساس نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ پروفیسر ہانس میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ میں نے جلدی سے مڑ کر دیکھا، میرے پیچھے کچھ نہیں تھا۔ کوئی نہیں تھا۔
اگرچہ ابھی شام نہیں ہوئی تھی، لیکن خلاف توقع گلیاں اور بازار سنسان نظر آرہے تھے۔ کہیں کسی جگہ بھی نہ کوئی دروازہ کھلا تھا، نہ کوئی کھڑکی وا تھی۔ کہیں بھی زندگی اور حرکت کے کوئی آثار نہیںتھے۔
میں نے جلدی جلدی قدم اٹھائے اور احاطے کا دروازہ کھول کر جھاڑیوں کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے شیڈ کی طرف بڑھا۔ میں ابھی خاردار جھاڑیوں کے درمیان ہی تھا کہ پروفیسر ہانس شیڈ میں سے برآمد ہوئے۔ ان کا چہرہ مردوں سے کہیں بڑھ کے زرد تھا۔ وہ ایک دم چلاتے ہوئے میری طرفبڑھے۔
‘‘اپنے آپ کو بچاؤ کرسٹن! اپنے آپ کو بچاؤ!’’
انہوں نے میرے قریب آکر مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکیل دیا۔ ان کا چہرہ سُتا ہوا تھا،  آنکھوں میں دھند سی چھائی ہوئی تھی اور ان کے کانپتے ہوئے ہونٹوں کو دیکھ کر شدید خوف ہوتا تھا۔
ان کے دھکے نے مجھے گلی میں لا پھینکا۔
‘‘چلے جاؤ! چلے جاؤ۔’’ ‘‘وہ چیختے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ‘‘کہیں جاکر چھپ جاؤ۔’’
میری مالکہ مکان نے جب پروفیسر ہانس کو مجھے دھکے دیتے دیکھا تو شاید یہی سمجھی کہ کوئی لٹیرا مجھے لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ دروازے پر آکر چیخیں مارنے لگی۔ مگر پروفیسر ہانس نے میرے ساتھ اسے بھی راہداری میں دھکا دے دیا اور خوفناک انداز میں قہقہے لگانے لگے۔
‘‘ہاہاہا! یہ بڑھیا یقیناً تمہارا کفارہ ادا کرے گی۔ یقیناً تمہارا کفارہ ادا کرے گی۔ جاؤ کرسٹن! جلدی اپنے کمرے میں پہنچ جاؤ۔ کالی بلا گلی میں پہنچ چکی۔ ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ گلی میں آگئی ہے۔’’
میں سیڑھیوں کی طرف یوں لپکا، جیسے موت کا فرشتہ میرے تعاقب میں ہو۔ جیسے کوئی خونخوار عفریت اپنے خون آشام پنجے پھیلائے میری طرف بڑھا آرہا ہو۔ میں ایک ایک چھلانگ میں کئی کئی زینے پھلانگتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا۔
پروفیسر ہانس میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور بند ہوگیا۔ میں دھم سے آرام کرسی میں دھنس گیا۔
‘‘اف میرے خدا!’’ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا کر بچوں کی طرح چیختے ہوئے کہا۔ ‘‘یہ سب کیا معاملہ ہے....؟ مجھے خوف آرہا ہے!’’
‘‘میں۔’’ پروفیسر ہانس نے انتہائی سرد لہجے میں کہا۔ ‘‘میں ابھی ابھی ایک طویل فاصلے سے واپس آیا ہوں۔ 18 ہزار میل.... دو دنوں میں.... ہاہاہا!....  میں ہندوستان میں دریائے گنگا کے کنارے پر تھا ، کرسٹن! وہاں سے میں ایک خوبصورت ساتھی اپنے ہمراہ لایا ہوں۔ ارے! ذرا سنو تو سہی! باہر کیا ہورہا ہے....؟’’
میں نے باہر کی آواز کی طرف کان لگا دیے۔ مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے لوگوں کا ہجوم گھبراہٹ کے عالم میں دوڑتا ہوا گلی سے گزر رہا ہے۔ اس کے بعد ایک ملا جلا شور سا سنائی دیا۔
اسی لمحے میری آنکھیں پروفیسر ہانس کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔ اب ان کی آنکھیں دھندلی دھندلی نہیں تھیں، بلکہ چمک رہی تھیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا۔ جیسے ایک شیطانی مسکراہٹ  ان آنکھوں میں ناچ رہی ہے۔
‘‘یہ کالی بلا ہے۔’’ وہ کہنے لگے۔ ‘‘یہی وہ خوبصورت ساتھی ہے، جو میں وہاں سے اپنے ہمراہ لایا ہوں۔’’
پھر اچانک ایک جوش کے عالم میں وہ کہنے لگے۔ ‘‘کوہ آبو کی بلندیوں سے، گنگا کے کنارے کھجوروں، اناروں اور املیوں کے جھنڈوں کے درمیان سے میں نے اسے دیکھا.... وہ ایک لاش پر بیٹھی تھی اور یہ لاش دریا میں بہتی ہوئی جارہی ہے۔ گدھوں کا ایک جھنڈ اس لاش کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔ میں نے اسے اشارے سے بلایا۔ وہ فوراً میرے پاس آگئی.... نہ صرف میرے پاس آگئی، بلکہ میرے ساتھ یہاں چلی آئی ہے.... اس نے اپنا کام بھی شروع کردیا ہے۔ سنو! ذرا سنو!’’
ایک انجانی قوت کے زیر اثر میں کرسی سے اٹھا اور کھڑکی میں سے باہر نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا۔ ایک رام سا آدمی، بےترتیب بالوں اور چڑھی ہوئی آستینوں کے ساتھ ایک عورت کو اپنے بازوؤں پر اٹھائے بھاگا جارہا تھا۔ عورت کا سر پیچھے کو گرا ہوا تھا، اس کے پیر بےچارگی کے عالم میں لٹک رہے تھے اور اس کے بازو بے جان سی حالت میں ڈول رہے تھے۔ وہ آدمی عورت کو اٹھائے میری کھڑکی کے نیچے سے گزرا۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس بدقسمت عورت کے چہرے کی رنگت سیاہ پڑتی جارہی ہے۔
وہ عورت بالکل نوجوان تھی۔ وہ کسی خوفناک بیماری کا شکار معلوم ہوتی تھی۔ کہیں یہ خوفناک بیماری وہی تو نہیں جسے پروفیسر ہانس کالی بلا کا نام ددے رہے ہیں اور جسے وہ ایک خوبصورت ساتھی کے طور پر اٹھارہ ہزار میل دور سے اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ اس دنیا سے انتقال لے سکیں، جس نے ان کےمقام و مرتبہ کو نہیں پہچانا۔ جس نے ان کے خیالات و نظریات کو جھٹلایا ہے۔ ان کا تمسخر اڑایا ہے....؟
یہ خیال آتے ہی میں نے پلٹ کر دیکھا۔ پروفیسر ہانس میرے کمرے سے غائب ہوچکے تھے۔ خوف سے میرا سارا وجود لرز کر رہ گیا۔
اسی گھڑی میں نے اپنا ٹرنک، اپنی کتابیں، اپنا سامان، اپنا سب کچھ وہیں چھوڑا، اپنی جیب میں ضروری رقم ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کی، تیزی کے ساتھ سیڑھیوں سے اترا اور باہر نکلتے ہی سیدھا قریبی کوچ آفس کی طرف بھاگا۔
ایک کوچ اس وقت اسڑاس برگ کی طرف جانے والی تھی۔ میں جست لگا کر اس پر یوں سوار ہوا، جیسے ایک ڈوبتا ہوا آدمی اپنے آپ کو دریا میں بہتے ہوئے کسی تختے پر پھینک دیتا ہے۔ کوچ روانہ ہوگئی۔
سبھی لوگ خوش تھے.... ہنس رہے تھے۔ ایک دوسرے کی باتوں پر قہقہے لگا رہے تھے۔ کسی کو ابھی تک یہ علم نہیں تھا کہ کالی بلا نے فرانس پر یلغار کر دی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، کوچ جہاں کہیں بھی رکتی، میں کھڑکی سے سر نکال کر باہر کھڑے لوگوں سے پوچھتا۔ ‘‘کالی بلا تو نہیں پہنچی....؟’’
اور ہر بار لوگ میری بات سن کر ہنس دیتے تھے۔ ‘‘آہ بے چارہ! معلوم ہوتا ہے اس کا دماغ چل گیا ہے۔’’ یہ میرے بارے میں میرے ہم سفروں کے تاثرات تھے۔ تین دن کے سفر کے بعد میں اپنے انکل کے پاس پہنچا اور جاتے ہی ان کے محبت بھرے سینے سے لپٹ گیا۔
انہوں نے محبت اور شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ‘‘تم نے بہت اچھا کیا، جو وہاں سے چلے آئے۔ واقعی تم نے بہت اچھا کیا۔ یہ اخبار دیکھو ذرا۔ اب تک ہزاروں  لوگ موت کے منہ میں جاچکے ہیں.... وہاں کوئی وبا پھیل گئی ہے۔’’
میں نے اخبار اٹھا کر ایک نظر ڈالی۔ اخبار پیرس میں دھڑا دھڑ مرنے والوں کی لرزہ خیز تفصیلات سے بھرا پڑا تھا۔ وہاں کوئی پراسرار وبا پھیل گئی تھی، جو بھی ا س وبا کا شکار ہوتا تھا، اسے قے پر قے ہوتی تھی۔ اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا تھا اور وہ دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا۔سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ لوگ اس وبا کو ‘‘کالی بلا’’ اور کامی موت Black  Deathکہنے لگے تھے۔  ماہرین اس کی کڑی  ہندوستان  میں پھوٹنے والی ہیضے کی وبا سے جوڑ رہے  تھے،   جو 1817ء سے 1824ء تک بنگال میں کلکتہ کے نزدیک پھیلی۔  ان وباؤں کے نتیجے میں لاکھوں  افراد ہلاک ہوئے۔   
مگر میں جانتا تھا یہ  کوئی ہیضہ نہیں بلکہ وہی کالی بلا تھی جسے پروفیسر ہانس  اٹھارہ ہزار میل دور ہندوستان سے ایک خوبصورت ساتھی کے طور پر اپنے ہمراہ لائے تھے۔ تاکہ اس دنیا اور خاص طور  پر اس پیرس سے انتقام لے سکیں۔ جس نے ان کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہچانا تھا۔ جس نے ان کے خیالات و نظریات کو جھٹلایا تھا۔ ان کا تمسخر اڑایا تھا....!
مجھے جھرجھری سی آگئی اور میں اخبار ایک طرف پھینک کر ڈرے سہمے بچے کی طرح دوبارہ اپنے انکل کے سینے سے چمٹ گیا۔


[ترجمہ محمد یونس حسرت]

امریکی فکشن ادیب  اور تھرلر اور ہارر  ناول نگار 

نامعلوم



نامعلوم


اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں