ہاشم ندیم کے قلم سے اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

لفظ گر

ایک ایسے ادیب کی کہانی جس کے اوپر ایک فیصلے کا بوجھ آن پڑا تھا اور اس فیصلے کی وجہ سے اس کے اندر ضمیر اور انا کی کشمکش جاری تھی۔  




رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا۔ ابھی چند لمحے پہلے ہی قصبے کے مرکزی چوک میں لگے قدم سالی خوردہ گھنٹہ گھر کی لرزتی ہوئی گھنٹی نے دو مرتبہ گونج کر قصبے کی گلیوں میں اونگھتے ہوئے آوارہ کتوں کو پھر سے چونک کر بھونکنے پر مجبور کردیا تھا۔ باہر تیز ہوا کا شور اور پہاڑوں کے پیچھے کوندتی آسمانی بجلی کی لمحہ بھر کی جھلک اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ موسم کے تیور کسی بھی لمحہ برسنے والے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں کومحفوظ دیواروں کے پیچھے اپنے نرم اور گرم بستروں میں محو خواب تھے لیکن اس قدیم قصبے کی مرکزی شاہراہ سے جڑی ایک گلی میں واقع اس بڑے ادیب کے کمرے کی کھڑکی سے اب بھی مٹی کے تیل سے جلنے والے لیمپ کی روشنی، مٹیالے شیشوں سے چھن چھن کر باہر سے گزرنے والے اگا دکا راہ گیروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی، لیکن کوئی بھی اس قیامت سے واقف نہ تھا جو اس وقت اس بڑے ادیب کے دل پر گزر رہی تھی جو اپنے وسیع کمرے میں بےچینی سے ٹہلتے ہوئے بےخیالی میں بار بار اپنی انگلیاں مسل رہا تھا۔ اس کی نظر بار ہا کمرے کی میز پر رکھے وقت پیما پر پڑ رہی تھی۔ جس کے اوپر کے حصے سے ریت اتنی ہی تیزی سے نچلے حصے میں پھسلتی جارہی تھی۔ جس تیزی سے اس بڑے ادیب کے ہاتھوں سے وقت....
اسی میز پر لیمپ سے ذرا فاصلے پر وہ قلم اور دوات بھی دھرے تھے جن سے اب تک وہ بڑا ادیب نہ جانے کتنے شاہکار تصنیف کر چکا تھا۔ تبھی تو پورے ملک میں اس کے فن تحریر کی دھوم تھی۔ وزیروں اور مشیروں کے ہاں دعوتوں میں اسے خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ شہر اور قصبے کے رئیس اور امراء اس کے ساتھ دوستی اور تعلق کو فخر سے بیان کرتے تھے اور اس کی رومانی داستانوں کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کتنے پردہ نشینوں کا دل اس کے نام پر دھڑکنا شروع کردیتا تھا۔
لیکن آج کی یہ طوفانی رات اس بڑے ادیب پر بھاری تھی۔ حتیٰ کہ ان نازنینوں کے ہفتے بھر کے جمع کیے ہوئے درجنوں خطوط بھی اس کی توجہ نہیں بٹا پارہے تھے جو سامنے میز پر وقت پیما کے قریب ہی ایک مہکتے ہوئے انبار کی صورت میں جمع پڑے تھے۔ دفعتاً ادیب کی نظر ان مہکتے ہوئے خطوط سے پھسل کر اس مسودے پر جاپڑتی ہے جو نہ صرف آج کی رات بلکہ جانے پچھلی کتنی راتوں سے اس کی نیند اڑانے کا باعث بنا ہوا تھا۔ بڑا ادیب ایک دم یوں چونکتا ہے جیسے میز پر عام سے کاغذ پر لکھا کوئی مسودہ نہیں بلکہ کوئی کالا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا ہو۔
ابھی چند دن پہلے ہی کی تو بات ہے۔ اس بڑے ادیب کی زندگی میں سکون اور چین کی روانی تھی۔ فخر اور غرور کا غلبہ تھا۔ عام لوگوں میں ایک منفرد اور سب سے ممتاز حیثیت حاصل ہونے کا اطمینان تھا۔ قصبے کے واحد اور بڑے، چوبی فرش واے ہال میں جب کسی تقریب میں بطور مہمان خصوصی اسے بلایا جاتا اور مقرر اس کے فن کے حوالے سے اپنی تقاریر میں اس کی تعریف میں زمین و آسماں کے قلابے ملاتے تو وہ کس قدر فخر کے ساتھ ہال میں بیٹھے سامعین کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھا کرتا تھا۔ پھر ایک دن اسی ہال کے مرکز سے پچھلی نشستوں سے ایک نوجوان اٹھ کر اسٹیج پر آیا تھا۔ ہاں، وہی ایک معمولی سا نوجوان، جو شہر کے ایک عام مزدور کا بیٹا تھا، لیکن خوش قسمتی سے ایک دوسرے بڑے قصبے سے حکومت کے خرچ پر تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹا تھا۔ اس نوجوان نے اسٹیج پر آکر بڑے ادیب کے تازہ ترین فن پارے پر نہایت موثر اور مدلل تجزیہ پیش کیا اور اعتراف کیا کہ وہ بچپن ہی سے بڑے ادیب کے فن کا بہت بڑا قدر دان اور مداح رہا ہے اور اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہے کہ آج قدرت نے اسے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے آئیڈیل کی مدح سرائی میں اسٹیج پر کھڑا ہے۔
بڑے ادیب کا اس نوجوان سے یہ پہلا تعارف تھا، لیکن کون جانتا تھا کہ آئندہ چند مہینوں میں یہ تعارف ادیب کے لیے ایک چبھتے کانٹے کی صورت اختیار کرلے گا۔ نوجوان نے اسی دن اسٹیج پر ادب کی دنیا میں اپنا پہلا قدم رکھنے کا عزم قصبے پر ظاہر کردیا تھا اور بڑے ادیب سے رہنمائی حاصل کرنے کی خواہش کا اظہا ربھی کیا تھا۔ جواباً بڑے ادیب نے اپنی اختتامی تقریر میں اس نوجوان کے ادبی مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور اپنی سرپرستی اور  رہنمائی کے ہر لمحہ میسر ہونے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔
اس کے بعد قصبے کے واحد بڑے اخبار میں اس نوجوان کے اکا دکا مضامین اور افسانے چھپنے لگے جنہیں پڑھنے کا موقع کبھی اس بڑے ادیب کو ملا ہی نہیں کیونکہ وہ اکثر تقاریب کے سلسلے میں قصبے سے باہر ہی رہتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ بڑے ادیب کو اس حقیقت کا ادراک ہونے لگا کہ قصبے کے لوگ اس نوجوان کی تحریر میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ اس کی تحریروں سے کافی متاثر نظر آتا تھا کیونکہ شاید اس کی تحر یر قصبے کے نوجوانوں کو اپنے دل کے قریب محسوس ہوتی تھی۔ بڑے ادیب کو شہر کے واحد بڑے اخبار کا مدیر بنا دیا گیا تھا اور پھر ایک دن بڑے ادیب کو اس وقت چوکنا ہونا پڑا جب ایک تقریر میں اسی مرکزی ہال میں اس نوجوان ادیب کو بھی بڑے ادیب کے ساتھ مہمان خصوصی میں شامل کر لیا گیا حالانکہ تقریب کے منتظمین نے اس بات کی وضاحت تقریب کے دعوت نامے میں ہی کردی تھی کہ تقریب کے مہمان خصوصی تو حضرت بڑے ادیب ہی ہوں گے اور دیگر شرکا میں سے وہ نوجوان ادیب صرف نوجوان طبقے کی نمائندگی کے لیے اسٹیج پر موجود رہے گا، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ بڑے ادیب کو اپنے اقتدار میں کسی دوسرے کی اتنی سی شرکت بھی گوارا نہیں تھی۔ بڑا ادیب اندر سے بہت جز بز ہوا، لیکن اپنی اندرونی کشمکش کو تقریب کے دوران اپنے چہرے سے ظاہر نہ ہونے دیا۔ تقریب کے اختتام پر نوجوان ادیب نے اپنے نئے افسانے کا مسودہ بھی بڑے ادیب کی خدمت میں پیش کردیا تاکہ بڑا ادیب اس کا تنقیدی جائزہ لے کر اپنی رائے سے مطلع کرسکے۔
بڑے ادیب نے محسوس کرلیا تھا کہ لوگ اب اس نوجوان ادیب کی تحریر کو سنجیدگی سے لینے لگے ہیں، لہٰذا اس نے وہیں کھڑے کھڑے اس نوجوان کے مسودے سے چند صفحے پلٹے اور بےدلی سے نظر ڈالنے کے بعد وہیں اپنے مداحوں کی بھیڑ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے استہزائیہ انداز میں ایک قہقہہ لگایا اور نوجوان کی تحریر میں بلا وجہ چند کیڑے نکالے اور اسے مزید محنت کی تلقین کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اگر وہ نوجوان ادیب اس بڑے ادیب کے مشوروں پر عمل کرے گا تو ہوسکتا ہے کہ بڑا ادیب اسے اپنے اخبار میں چھپنے کے لیے بھی زیر غور رکھے۔ نوجوان مصنف نے خندہ پیشانی سے بڑے ادیب کی تمام تنقید سنی اور جھکے ہوئے سر کے ساتھ ہی دوبارہ درخواست کی کہ اس کی خوشی نصیبی ہوگی کہ اگر بڑا ادیب اس کا یہ مسودہ اپنے گھر لے جائے اور پورا افسانہ پڑھنے کے بعد نوجوان مصنف کو اس کی تحریر کی خامیوں سے آگاہ کرے۔بڑے ادیب کو بادل نخواستہ وہ مسودہ اپنے ساتھ گھر لے جانا ہی پڑا اور بہت دن تک تو اس نے نظر اٹھا کر دوبارہ اس مسودے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا البتہ جب کبھی درمیان میں نوجوان مصنف سے اس کا آمنا سامنا ہوجاتا تو وہ بھری محفل میں نوجوان ادیب کی تحریر پر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دو چار فقرے ضرور کس دیتا تھا، لیکن نوجوان ادیب نے ہمیشہ اس کی تنقید اور طنز کو سعادت مندی کے ساتھ ہی قبول کیا۔
اس دوران بڑے ادیب نے اس بات کا خاص اہتمام رکھا کہ نوجوان ادیب کی تحریریں اس کے زیر صدارت چلنے والے اخبار میں نہ چھپ سکیں۔ پھر ایک دن اچانک، جب موسم کے تیور اس رات کی طرح ہی بھیانک تھے بڑے ادیب کو سر شام ہی کسی تقریب کے ملتوی ہوجانے کی وجہ سے قصبے کو لوٹنا پڑا۔ اس کی شاندار بگھی جب قصبے کے مرکزی ہال کے سامنے سے گزر رہی تھی تو اس نے وہاں پر جوش نوجوانوں کا ہجوم دیکھا جو دیوار پر لگے کسی اشتہار کے سامنے جمع تھے۔ بڑے ادیب کی بگھی کو آتا دیکھ کر لوگ جلدی سے اس کی جانب مڑے، مجبوراً ادیب کو کوچوان کو رکنے کا کہنا پڑا۔
باہر ڈھلتی شام اور تیز بوندا باندی نے ہوا میں شدید خنکی بھر دی تھی، لیکن خلاف دستور قصبے کے لوگ ابھی تک ہال کے سامنے جمع تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی خبر نے ان کے اندر ایسا جوش بھر دیا تھا جس سے انہیں اس شدید سردی کا احساس بھی نہ رہا ہو۔ لوگوں کا ہجوم کالی چھتریوں کی مانند اس اشتہار سے چپکا ہوا تھا جو بڑے ہال کے چوبی دروازے پر چسپاں تھا۔ آخر کار عقدہ یہ کھلا کہ قصبے کے نوجوان مصنف کے کسی افسانے کو مرکزی حکومت نے اس فہرست میں شامل کردیا ہے جنہیں ہر سال کے آخر میں تمغے کے لیے ایک جیوری کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ پھر جیوری کڑی جانچ اور فنی معیار کی تمام باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سے کسی بھی ایک فن پارے کو اس سونے کے تمغے کے لیے چنتی تھی جو ہر سال کے آخر میں ایک بہت بڑی اور پروقار تقریب میں خود سربراہ مملکت کے ہاتھوں اس فن پارے کے تخلیق کار کے گلے میں پہنایا جاتا تھا۔
یہ خبر سنتے ہی جانے کیوں بڑے ادیب کو اپنے جسم کا سارا خون اپنی کن پٹیوں کی جانب دوڑتا محسوس ہونے لگا۔ ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ اس سال کی جیوری میں خود اس بڑے ادیب کا نام بھی ملک کے دیگر ادیبوں کے ساتھ شامل تھا۔ اسے ایسا لگا جیسے پل بھر میں اس کی برسوں کی ریاضت سے بنائی اور کمائی ہوئی سلطنت کا ایک اور حصہ دار پیدا ہوگیا ہو۔ بڑے ادیب کو یہ سوچ کر ہی ہول آنے لگا کہ اب قصبے میں کوئی ادبی حوالہ دیا جائے گا تو اس کے نام کے ساتھ اس نوجوان ادیب کا نام بھی آئے گا۔ جب کبھی کسی تقریب میں اسے مدعو کیا جائے گا تب اس کی کرسی کے ساتھ ساتھ اس نوجوان ادیب کی کرسی بھی اس کے شانہ بشانہ لگائی جائے گی اور اگر خدانخواستہ وہ نوجوان خوش قسمتی سے اس تمغے کا حق دار بھی سمجھا گیا تو سمجھو بڑے ادیب کی تو پوری کی پوری ریاست لوٹ لی جائے گی۔ قصبے کے لوگ اسے کوئی متروکہ شخصیت سمجھ کر رفتہ رفتہ بھول جائیں گے۔ لوگوں کی نظر سے اس کے لیے داد و تحسین اور شک کی چمک رفتہ رفتہ معدوم ہوجائے گی اور پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد آئندہ بڑے ادیب کو ایسی تقریبات میں مدعو ہی نہ کیا جائے....؟ یہ سب سوچتے ہی بڑے ادیب کو اک جھر جھری سی آگئی اور اسے اپنا جسم شدید بخار سے تپتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
بڑے ادیب کی انا پر دوسری کاری ضرب اس وقت لگی جب اسے یہ پتا چلا کہ منتخب ہونے والا افسانہ نوجوان ادیب کی وہی کاوش ہے جو مہینوں پہلے اس نے بڑے ادیب کو فنی تجزیے کے لیے دی تھی اور جس کا بڑا ادیب اب تک ہر محفل میں جانے کتنی بار مذاق اڑا چکا تھا۔ اب یہ سوچ کر ہی اسے ‘‘سرسام’’ طاری ہونے لگتا تھا کہ اگر جیوری نے اپنا فیصلہ اسی افسانے کے حق میں دے دیا تو اس کی علمی اور فنی قابلیت قصبے کے لوگوں کی نظر میں کیا رہ جائےگی....؟
جس افسانے کو پڑھے بغیر وہ آج تک شدید تنقید کرتا رہا تھا اس دن جب پہلی مرتبہ اس نے 
اس کے ورق پلٹے تو بڑے ادیب کو محسوس ہوا کہ صفحے اس کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ہر لفظ میں پختگی، ہر جملے میں اتنا گہرا پن.... سچ ہے کہ وہ افسانہ تو تھا ہی ایک ایسا شاہکار جسے کسی اعزاز ہی کا مستحق ہونا چاہیے تھا۔ بڑے ادیب کے اندر کا لفظ گر اور فن کار چیخ چیخ کر اس افسانے کی سطح پر داد دیتا رہا اور افسانہ ختم کرتے کرتے بڑا ادیب اس بری طرح سے ہانپنے لگا تھا جیسے وہ جانے کتنے میل کی دوری سے دوڑتا ہوا کسی بلند چوٹی تک پہنچا ہو۔
باہر کسی بگھی کے گزرنے اور گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز گونجتی ہے۔ بڑے ادیب کے خیالات کی رو ٹوٹ جاتی ہے اور وہ چونک کر میز پر پڑی اپنی جی بی گھڑی کو دیکھتا ہے۔ رات کا آخری پہر شروع ہوچکا ہے اور صبح اسے ہر حال میں اپنا فیصلہ جیوری کے باقی ارکان کو منتقل کرنا ہی ہوگا۔ کیونکہ اب مزید ٹال مٹول ممکن نہیں تھا اور کل تو فیصلے کا دن بھی تھا۔ اب تک کے نتائج سے یہ صاف ظاہر تھا کہ آخرکار بڑے ادیب کا ووٹ ہی فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ یعنی اگر وہ نوجوان ادیب کے حق میں فیصلہ دےگا تو تمغہ اس کا نصیب ہوگا اور اس کا فیصلہ اگر خلاف ہوا تو نوجوان ادیب ہمیشہ کے لیے اس اعزاز سے محروم ہوجائے گا۔
یہی وہ کشمکش تھی جس نے کئی ہفتوں سے بڑے ادیب کو ہلکان کر رکھا تھا۔ اس کے اندر کا حاسد، خودپرست، خود غرض اور خود پسند آدمی اسے نوجوان مصنف کے حق میں فیصلہ دینے سے روکتا تھا اور چیخ چیخ کر اسے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے انجام سے باخبر کرتا تھا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے فن کی قبر نہ کھودے ورنہ کل اس قصبے میں کوئی اس کا نام لیوا بھی نہ ہوگا اور یہ تمام عزت، شہرت اور توقیر کسی اور کے نام ہوجائے گی۔ لیکن بڑے ادیب کے اندر کا سچا فنکار اسے اس بےایمانی کے گناہ سے روکتا اور تنہائی میں اسے نشتر چبھوتا تھا کہ کیا وہ اندر سے اتنا ہی بودا اور کمزور ہے کہ ایک نئے آنے والے کے لیے جگہ خالی کرنے سے بھی خوفزدہ ہے....؟ ایسا تنگ نظر، کم ظرف تو وہ پہلے کبھی نہ تھا۔
کبھی کبھی تو اس کے اندر کے چھوٹے انسان اور ایک سچے فنکار کے اندر کی یہ جنگ اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ اسے اپنی روح دو حصوں میں کٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اسے یوں لگنے لگتا تھا کہ ضمیر کی آری اس کے اندر کے حقیقی لفظ گر اور اس کم ظرف انسان کو الگ کرنے کی تگ و دو میں اسے چیر پھاڑ کر علیحدہ کر رہی ہو۔
ظرف اور کم ظرفی کی اس کھینچا تانی میں اسے اپنی روح کے ریشے تک ادھڑتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور آج تو فیصلے کی رات اس قدر بھاری تھی کہ لمحے بھی صدیوں کی طرح سرک رہے تھے۔
اور پھر آخر کار ہر رات کی طرح اس رات کا انجام بھی ایک صبح ہی تھی۔ چاہے وہ صبح دوسری عام صبحوں کی طرح چمکیلی اور روشن نہ تھی، لیکن پھر بھی رات کے اندھیرے کو ٹالنے کے لیے کافی تھی۔ رات کے آخری پہر بادل دل کھل کر برسے تھے اور اب قصبے کی مرکزی سڑک کسی تالاب کا منظر پیش کر رہی تھی۔ آس پاس کے گھروں سے شریر بچے نکل کر اپنا پسندیدہ مشغلہ یعنی ‘‘کاغذ کی کشتی اور بارش کا پانی’’ میں مشغول ہوچکے تھے۔ آسمان اب بھی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور گھروں کی چمنیوں سے کالے دھویں کے ساتھ چائے اور کافی کی مہک بھی فضا میں بلند ہورہی تھی۔ ایک جانی پہچانی بگھی ٹپا ٹپ اسٹیشن کی طرف رواں دواں تھی۔
کچھ ہی دیر میں لوگ ٹھٹھرتی ہوا کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے اپنے لمبے لمبے ادور کوٹ پہنے رفتہ رفتہ بڑے ادیب کے گھر کے باہر جمع ہونے لگ گئے کہ آج ان کے قصبے کے ہر دلعزیز نوجوان مصنف کی قسمت کا فیصلہ بڑے ادیب کے قلم سے طے جو ہونا تھا، لیکن اب رفتہ رفتہ اس ہجوم میں بے چینی بڑھتی ہی جارہی تھی کیونکہ دن چڑھنے کے باوجود خلاف معمول بڑا ادیب ابھی تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکلاتھا۔
قصبے کے لوگ تو آج اس ارادے سے اکھٹے ہوئے تھے کہ بڑے ادیب کو ایک جلوس کی شکل میں ہال تک لے کر جائیں گے جہاں اسے اپنے اہم فیصلے کا اعلان کرنا تھا، لیکن اس تاخیر کی وجہ کیا تھی....؟ لوگوں کی بےچینی اب اپنے عروج پر آپہنچی تھی، لہٰذا چند بڑے بوڑھوں نے خود آگے بڑھ کر بڑے ادیب کے گھر کا بڑا سا چوبی دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا، لیکن کوئی جواب ندارد.... اب تو مجمعے میں تشویش بھری سرگوشیاں بھی شروع ہوچکی تھیں۔ آخر کار گھنٹہ بھر کے انتظار کے بعد یہ طے پایا کہ باغ کے راستے سے کوئی ایک نوجوان اندر کود کر گھر کی پچھلی جانب سے اندر داخل ہو کر دروازہ  کھلے گا لیکن دروازے کا لاک تو پہلے ہی کھلا ہوا تھا بس اس کو بند کیا ہوا تھا، دروازہ کھلتے ہی ہجوم میں دھکم پیل شروع ہوگئی لیکن تین چار بزرگوں نے آگے بڑھ کر سب کو ڈانٹا اور وہیں ٹکے رہنے کا حکم دے کر خود محتاط قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوگئے۔
بڑے ادیب کے کمرے کا دروازہ آدھ کھلا ہوا تھا، کمرے کے اندر جا کر دیکھا تو مطالعہ کی میز پر کچھ دستاویزات اور ایک تحریر رکھی ہوئی تھی، جس میں لکھا تھا کہ نوجوان مصنف کا افسانہ ہی اس قابل ہے کہ اس کو تمغے سے نوازا جائے، نیز یہ گھر بھی انعام میں نوجوان مصنف کو دے دیا گیا تھا اور بڑے ادیب صاحب ہمیشہ کے لیے اس قصبے کو خیر آباد کہہ کر چلے گئے تھے۔


  پاکستان  کے معروف فکشن رائٹر، ناول نگار،  ڈرامہ نویس اور  شاعر

ہاشم ندیم  ۔1976ء تاحال



پاکستان کے ممتاز  فکشن رائٹر ہاشم ندیم کا نام “خدا اور محبت” اور “عبداللہ” جیسے ناولوں کی مقبولیت کے بعد اجنبی نہیں رہا۔ آپ کے قلم سے نکلے ہوئے ہر  کام کو پورے پاکستان میں سراہا گیا۔ ‘‘خدا اور محبت’’ اور ‘‘عبداللہ’’نے مقبولیت اور پسندیدگی کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور بیسٹ سیلر کی فہرست میں شامل ہیں ۔ ایک  سروے کے مطابق ان کا ناول ‘‘عبداللہ ’’ پاکستان ملک میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناول ہے۔
 ہاشم ندیم خان،      3فروری 1976ء کو بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کیڈٹ کالج پٹارو سے حاصل کی اور پھر بولان میڈیکل کالج سے طب کی ڈگری لی ۔ اس کے بعد انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور 1996ء میں کوئٹہ میں بطور اسسٹنٹ کشنر کے کام کرنے لگے۔   ان کے دیگر ناول میں بچپن کا دسمبر، ایک محبت اور سہی، مقدس  اور پری زاد شامل ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعزاز میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغا حسن کارکردگی سے نوزا۔ انہوں نے 27 ٹیلی فلمز اور 11 ڈراما سیریل بھی تیار کیے ہیں،  جن کے لیے انہیں بولان ایوارڈ بھی ملا۔
ہاشم عبداللہ کی کتاب ‘‘صلیبِ عشق’’ ان کے افسانوں اور آزاد نظموں کا مجموعہ ہے۔ان میں شامل افسانوں میں حساسیت کا رنگ نمایاں ہے۔  اس کتاب میں شامل زیر نظر افسانہ “لفظ گر” ایک کامیاب اور مشہور ادیب کا قصہ ہے جو ایک نئے ابھرتے ہوئے ادیب سے خائف تھا۔ وہ کامیابی کے جس سنگھاسن پہ براجمان تھا اس میں ذرا سی شراکت بھی اسے گوارا نہیں تھی۔ وہ کامیاب ادیب، اس نئے ابھرتے ہوئے ادیب سے کیسا سلوک کرتا ہے اور آیا وہ اس سے ہارتا ہے یا جیتتا ہے، یہ افسانہ اسی بارے میں ہے۔