ترکی ادب سے انتخاب 

گدھا اور تمغۂ خدمت


عزیز نے سن

(ترجمہ:کرنل  (ر)  مسعود شیخ)

 زیرِ نظر تحریر  عزیز نیسن  کی کہانی   The Donkey and the National Service Medal  کا ترجمہ ہے،   جو کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ کی انگریزی کتاب   Laugh or Lament (ہنسیں یا نوحہ کریں) اور  اردو کتاب ‘‘تماشائے اہل کرم ’’میں شامل ہے۔



ایک  دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک میں  ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوش حال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔
 وقت گزرتا گیا.... پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نامعلوم کیوں، پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔  نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی  چیزوں کی فراوانی رہا کرتی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں۔ وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے۔
جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جارہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سمجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی ڈھونڈو رچی روانہ کروائے اور بذریعہ منادی مندرجہ ذیل شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا۔
‘‘میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغہ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فوراً شاہی محل میں حاضر ہو جائے۔ مابدولت اسے تمغہ خدمت سے نوازیں گے۔’’
منادی سنتے ہی ملک   کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر میں تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن  سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغہ خدمت درجہ اول خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجہ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ وغیرہ۔ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص کو اس کی  خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کردیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخ دلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔
 ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنےو الوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے دکھائی دینے لگے۔
ایک گائے  نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے ٹنٹناتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی۔ اس کے باوجود گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جاپہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا، تو بولی....
‘‘بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان  کی رعایا میں سے ایک گائے شرف ملاقات کے لیے حاضر ہوئیہے۔’’
دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ بولا....
گائے نے عرض کی ‘‘بادشاہ سلامت میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے  دربار میں حاضر ہوئیہوں۔’’
‘‘تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی....؟ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سرانجام دیتے ہیں جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں....؟’’ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا۔
گائے  نے جواب دیا ‘‘بادشاہ سلامت، اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حقدار نہیں تو پھر بھلا اور کون حقدار ہوسکتا ہے! میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے....؟’’
گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ گائے کو فوراً تمغہ خدمت درجہ دوئم عطا کردیا جائے۔
گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا۔ 
‘‘گائے جی سلام!’’
‘‘سلام خچر بھیا۔’’
‘‘باجی آج بڑی خوش نظر آرہی ہو، کیا وجہ ہے....؟ کہاں سے آرہی ہو....؟ اور ہاں، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے....؟’’
گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آیا، فوراً سرپٹ بھاگا اور جاکر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا۔
دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی کواہش ظاہر کی، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر اپنی موروثی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دو دربانوں پر دو لتیاں جھاڑیں، ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہماں اندر آنا چاہتا ہے۔
بادشاہ نے حکم دیا ‘‘خچر کو پیش کیا جائے، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی میں شمار ہوتا ہے۔’’
خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔
بادشاہ نے پوچھا ‘‘اے خچر، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغےکا حقدار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئےہو....؟’’
خچر نے عرض کی ‘‘مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی  نہیں۔  بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں، گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اُٹھا کر  کون دشوار گزار راستوں  سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے۔ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے....؟ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بےشمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے۔’’
بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو درجہ اول کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔
خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔ گدھے نے خچر سے کہا ‘‘سلام پیارے بھتیجے۔’’
‘‘سلام چچا جان’’ خچر نے جواب دیا۔
‘‘کہو! اتنے خوش خوش کہاں سے آرہے ہو....؟’’
خچر نے سارا واقعہ سنایا، تو گدھا رینکا۔
‘‘ذرا ٹھہرو، میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔’’
یہ کہا اور بھاگم بھاگ سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کرکے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ لگاتار بادشاہ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آخرکار بادشاہ  کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آچکا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا۔
‘‘گدھے کہیں کے تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل میں آپہنچے ہو اور  پھر طرہ یہ کہ مابدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو۔ میری رعایا کے حیوانوں میں  گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔ خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سرانجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں، ڈھینچوں کرکےرعایا کے آرام میں خلل اندازی کے اور کیا کام کیاہے....؟
تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں....؟’’
گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا ‘‘بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو گدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنہیں لوگ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی محفوظ چلی آرہی ہے۔’’
گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا
 ‘‘واقعی گدھا حق بجانب ہے۔’’
بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا
 ‘‘اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ اددا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے، البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ ہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا  کرو۔’’   



ترکی  زبان کے  ادیب، شاعر ، طنز نگار اور مزاح نگار

عزیز نے سن   ۔1915ء تا 1995ء 



ترکی کے دورِ جدید کے  مشہور ادیب، شاعر، ڈراما نگار، مزاح  وطنز نگار    اور 100 سے زائد کتابوں کے مصنف   عزیز نے سن Aziz Nesin،  کا اصل نام محمد نصرت تھا۔ عزیز نے  سن 20 دسمبر 1915ء  کو  سلطنت عثمانیہ کے جزائر پرنس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں استنبول آگئے ۔ اُن کی 100سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آئیں۔ عزیز نیسن نے متعدد طنزیہ رسائل کی ادارت کی۔ طنز و مزاح پر اُنہیں متعدد عالمی ایوارڈ مل چکے ہیں ۔ اُن کی طنز و مزاح سے بھرپور کہانیاں دنیا کی کم ازکم تیس  زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ انہیں ترکی، اطالیہ، بلغاریہ اور سابق سوویت یونین میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
عزیز  نیسن  نے 1972ء میں ‘‘نیسن فاؤنڈیشن’’قائم کی۔ فاؤنڈیشن کا مقصد ہر سال چار بچوں کو فاؤنڈیشن کے قائم کردہ گھر میں لاکر ان کی تمام ضروریات کی کفالت کرنا ہے۔ ان ضرورریات میں روٹی، کپڑے اور مکان کے ساتھ ساتھ ابتدائی اسکول سے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک بچوں کی تعلیم و تربیت بھی شامل ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عزیز نیسن نے تمام تخلیقات  کے تمام حقوق دائمی طور پر فاؤنڈیشن کے نام کردیے۔ 
عزیزنیسن کی وفات حرکتِ قلب بند ہونے سے 6 جولائی 1995ء کو چشمے، ترکی میں ہوئی۔
عزیز نیسن کی  سوانح حیات ، ناول اور تحریروں کو انگریزی زبان میں ان کے دوست اور امریکہ میں لینگویج کے پروفیسر  جوزف جیکب سن نے منتقل کیا  ۔ عزیز نیسن  کی اکثر کہانیوں کو کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ نے انگریزی اور اردو زبان میں   ترجمہ کیا، کرنل مسعود نے ترکی کے اسٹاف کالج استنبول میں پڑھا، ترکی زبان پر دسترس حاصل کی اور ترکی ادب کو پاکستان میں روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا۔  اردو زبان میں مجموعی طور پر 66 کہانیاں اور مضامین  کے تین مجموعے تماشائے اہل کرم،  ہمارے امریکی مہمان ،  اور  ہمارے امریکی مہمان کے عنوان سے کتابی صورت میں شایع ہوئے۔   
 زیرِ نظر تحریر  عزیز نیسن  کی کہانی   The Donkey and the National Service Medal  کا ترجمہ ہے،   جو کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ کی انگریزی کتاب   Laugh or Lament (ہنسیں یا نوحہ کریں) اور  اردو کتاب ‘‘تماشائے اہل کرم ’’میں شامل ہے۔
۔ 



اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں