افریقی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

جھوٹ کا بدلہ جھوٹ


فرینک براؤنلی

افریقی ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے،لیکن چونکہ افریقا جدید تمدن سے دور ایک تاریک براعظم تھا اوروہاں کے لوگ پڑھنا لکھنا بالکل نہیں جانتے تھے۔ اس لیے افریقا میں لوک داستانیں  اور کہانیاں صرف بولی جاتی تھیں،لکھی نہیں جاتی تھیں۔ افریقا کا ادب زیادہ تر سینہ بہ سینہ چلا آرہا تھا۔ سولہویں صدی (نوآبادیاتی نظام )کے بعد  افریقی ممالک انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے قبضے میں آگئے۔ ایک لمبے عرصے تک غلامی کی چکی میں پستے پستے غلاموں نے آقاؤں کی زبانیں سیکھ لیں۔ یوں  افریقی زبانی ادب تحریر  کی شکل میں آنے لگا۔ 

جنوبی افریقا کی مقامی بولیوں کی ایک لوک کہانی شیر اور گیدڑLion and Jackal کو  کیپ ٹاؤن کے انگریز ادیب اور مجسٹریٹ فرینک براؤنلی  نے مقامی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کرتے وقت  ‘‘فاختہ اور گیدڑ’’ کردیا ،  اس کہانی کا اردو ترجمہ ‘‘جھوٹ کا بدلہ جھوٹ’’ کے عنوان  سے قارئین  کی  دلچسپی کے لیے شایع کیا جارہا ہے۔ 



دنیا کے تمام پرندوں میں کوئی اتنا سادہ لوح، شریف اور مسکین نہیں ہے، جتنی کہ فاختہ۔ اس کے سب ہی  طور طریقے بڑے عاجزانہ اور شریفانہ ہیں۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ بدی اور شر کیا چیز ہیں۔
گیدڑ ایک مکار اور بدمعاش  جانور ہے۔ عیاری اس پر ختم ہے۔
ایک روز فاختہ درخت کی شاخ پر بیٹھی اپنے ننھے ننھے تین بچوں کو چوم چاٹ رہی تھی۔ یہ سب اپنے اس گھونسلے میں آرام و سکون سے رہتے تھے، جو تنکے چن چن کر بڑی مشکل سے بنایا گیا تھا۔ جس وقت گیدڑ کا وہاں سے گزر ہوا، اس وقت فاختہ اپنے معصوم بچوں کو میٹھے اور مدھم سروں میں گانا سنا رہی تھی۔ ‘‘کوکو.... کو....کوکو....کو....’’
گانے کی آواز سن کر گیدڑ درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور اوپر کی طرف دیکھنے لگا۔ فاختہ  کو پہچان لینے کے بعد بولا۔ ‘‘آداب عرض ہے بھانجی جان۔ کیا ہورہا ہے....؟’’
فاختہ بولی۔ ‘‘آداب عرض ماموں جان۔’’
گیدڑ نے پوچھا۔ ‘‘ یہ اوپر بیٹھی تم کیا کررہی ہو۔ اور یہ کوکو کا مطلب کیا ہے....؟’’
فاختہ  نے کہا۔ ‘‘مطلب وطلب کچھ نہیں ہے۔  بس ایک گانا ہے، بچوں کا دل خوش کرنے کا ایک بہانہ۔ تنکوں کے اس گھونسلے میں ان بےچاروں کو ملتا ہی کیا ہے سوائے کوکو کے۔’’
گیدڑ شفقت سے بولا۔ ‘‘ایسا نہ کہو۔ بہت خوبصورت گانا ہے۔ خیر سے بچے کتنے ہیں....؟’’
فاختہ بولی۔ ‘‘اللہ کے دیے، تین ہیں۔’’
گیدڑ نے درخت کے  چاروں طرف دو چار چکر لگائے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ پھر وہ اسی جگہ پر آکر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر بولا۔ بھانجی فاختہ، میری چھوٹی بہن کی بیٹی، تمہارا کنبہ تو بہت بڑا ہے۔ مجھے سخت بھوک لگی ہے۔’’
فاختہ نے کہا۔ ‘‘میں تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ تینوں بچے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزہیں۔’’
گیدڑ غرانے لگا۔ ‘‘تم اپنے آپ کو شریف سمجھتی ہو.... شریف.... کیا شریف ایسے ہوتے ہیں جو اپنے تین ہٹے کٹے بچوں کے ساتھ ٹھٹھے لگا رہا ہو اور نیچے دوسرا بھوک سے مر رہا ہو۔ دیکھو میری پسلیوں کو دیکھو۔ بھوک سے اندر دھنس گئی ہیں۔’’ گیدڑ نے اپنا سانس اندر کی طرف کھینچ لیا، تاکہ پسلیاں پیٹ سے لگ جائیں۔
فاختہ نے کہا۔ ‘‘ماموں گیدڑ مجھے واقعی آپ کی حالت پر افسوس ہے۔ لیکن میں کیا کرسکتی ہوں۔ اپنا بچہ میں کبھی آپ کو نہیں دوں گی۔ یہ میری جان کے ٹکڑے ہیں۔’’
گیدڑ رونے لگا۔ پھر اوپر کی طرف منہ کرکے لیٹ گیا۔ ‘‘فاختہ، تم مزے سے اوپر بیٹھی ہو، تمہارے بچے کھیل رہے ہیں اور میں یہاں بھوک سے مر رہا ہوں۔’’ وہ اس طرح درد سے کراہے لگا، جیسے واقعی مر رہا ہو۔
فاختہ نے کہا۔ خدا کے لیے اپنی جگہ پر چلے جاؤ ماموں جان، اور جہاں سے روز کھایا کرتے ہو، وہیں سے آج بھی کھاؤ۔’’
اتنا سننا تھا کہ گیدڑ آگ بگولا ہوگیا۔ اٹھ کھڑا ہوا اور طیش سے بولا۔ ‘‘میں اپنی بھوک کی بپتا سنا رہا ہوں اور تو حقیر سی چیز میری توہین کر رہی ہے۔ میں تجھ سے بڑی شرافت سے پیش آرہا ہوں اور تو نخرے کیے چلے جارہی ہے۔ میری برداشت کا مذاق نہ اڑا۔
 تو اپنا ایک بچہ  نیچے نہیں گرائے گی تو میں اوپر درخت پر چڑھ کر تیرے تینوں بچوں کو کھا لوں گا۔ تجھے بھی ہڑپ کرلوں گا اور تیرا یہ تنکوں کا محل پاش پاش کردوں گا۔’’
گیدڑ کی اس بھبکی سے فاختہ  اتنا ڈری کہ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ گیدڑ تو درخت پر چڑھ ہی نہیں سکتا۔ سو اس نے اپنے بچوں، اپنے آپ اور اپنے گھونسلے کو بچانے کے لیے اپنا ایک لخت جگر نیچے پھینک دیا۔
گیدڑ ایک ہی لقمے میں فاختہ کے بچے کو چٹ کر گیا۔ پھر اس نے درخت کے چاروں طرف دو چکر لگائے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔  پھر وہ اسی جگہ پر آکر بیٹھ  رہا۔ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اچانک زور زور سے رونے لگا۔ موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ زمین پر چت لیٹ کر، اور منہ آسمان کی طرف کرکے یوں بلبلانے لگا، جیسے مرنے والا ہو، پھر فاختہ کی طرف دیکھا اور بولا۔ ‘‘میری بھانجی فاختہ، سچ بتاؤ تمہارے کتنے بچے ہیں۔’’
فاختہ نے کہا ۔‘‘ دو.... صرف دو.... اب تو صرف دو’’
گیدڑ نے خوشامدانہ لہجے میں کہا ‘‘ان میں سے ایک، فقط ایک مجھے دے دو۔ ورنہ میں مرجاؤں گا.... مرجاؤں گا۔ مجھے بچالو فاختہ، مجھے بچالو۔’’
فاختہ نے انکار کیا تو گیدڑ اشتعال میں آگیا۔ ‘‘تو پھر توہین کر رہی ہے۔ تو نے میری بات کو بھلا دیا ہے یاد رکھ، اگر تو نے ایک بچہ نہیں گرایا تو میں اوپر درخت پر چڑھ کر تیرے دونوں بچوں کو کھا لوں گا۔ تجھے بھی ہڑپ کرلوں گا اور تیرا یہ تنکوں کا محل بھی پاش پاش کردوں گا۔’’
فاختہ نے کہا۔ ‘‘نہیں، ہرگز نہیں.... دو بچے، ہائے صرف دو بچے!’’
گیدڑ نے درخت کے چاروں طرف ایک چکر لگایا، یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ پھر وہ اپنی جگہ پر واپس آیا اور اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ‘‘اچھا فاختہ، اب تو اپنے انجام کے لیے  تیار ہوجا۔ میں اوپر آرہا ہوں۔ تیرے دونوں بچوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ تجھے بھی ہڑپ کر جاؤں گا، اور تیرا یہ گھونسلا تار تار کرکے نیچے پھینک دوں گا۔’’
گیدڑ کی اس بھبکی سے فاختہ اتنا ڈر گئی کہ اس نے اپنا دوسرا بچہ بھی نیچے پھینک دیا۔ گیدڑ اسے بھی ایک  ہی لقمے میں ہڑپ کر گیا۔ کچھ دیر  خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے درخت کے چاروں طرف ایک چکر لگایا، یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا۔
پھر اس نے اوپر فاختہ کی طرف دیکھا اور لجاجت سے بولا۔ 
‘‘میری چھوٹی بہن کی بیٹی، میری بھانجی فاختہ، میری مددد کرو۔ مجھے مرنے سے بچالو۔ اپنا ایک اور بچہ مجھے دے دو۔ ورنہ اس درخت کے نیچے تمہیں میری لاش ہی ملے گی۔ سچ بتاؤ، تمہارے کتنے بچے ہیں۔’’
فاختہ دکھ سے بولی۔ ‘‘ایک صرف ایک.... فقط ایک.... اگر مرنا ہے تو بےشک مرجاؤ۔ ایک دن سب کو مرنا ہے۔’’
اتنا سننا تھا کہ گیدڑ جلال میں آگیا۔ ‘‘تو نے اب کے توہین کی حد کردی ہے چھوکری۔ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بس اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ میں اوپر آتا ہوں، تیرا بچہ بھی کھاؤں گا، تجھے بھی کھاؤں گا اور تیرا محل اجاڑ دوں گا’’.... یہ کہتے ہوئے درخت کے تنے کی طرف جھپٹا، جیسے  وہ اب درخت پر چڑھنے والا ہو۔
فاختہ گیدڑ کی اس بھبکی سے ڈر گئی۔ اتنا ڈری کہ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ گیدڑ تو درخت پر چڑھ ہی نہیں سکتا۔  سو اس نے اپنا آخری بچہ بھی موت کے منہ میں پھینک دیا۔
گیدڑ اسے بھی ایک ہی لقمے میں ہڑپ کرگیا۔ پھر اس نے درخت کے چاروں طرف ایک چکر لگایا یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ پھر اس نے اپنی راہ لی۔
تھوڑی دیر پہلے جو فاختہ خوشیوں بھرا گیت گا رہی تھی ‘‘کوکو....کو’’ اب وہی فاختہ اپنے سونے گھر کو دیکھ کر بین کر رہی تھی ‘‘ہاہا....ہا۔’’
جس وقت وہ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ واویلا کر رہی تھی، عین اس وقت ایک ہنس کا ادھر سے گزر ہوا۔ ہنس نے کسی کے بین کرنے کی دکھ بھری آوازیں سنیں، تو وہ درخت کے نیچے آگیا۔ اوپر کی طرف دیکھا۔ فاختہ کو پہچان کر بولا۔
‘‘میری چھوٹی بہن، یہ بین کیوں، یہ ماتم کیسا۔ تم اتنی دکھی کیوں ہو....؟’’
فاختہ سے غم کے مارے بولا بھی نہ جارہا تھا۔ وہ صرف اتنا کہہ سکی۔
‘‘آہ.... ہائے۔’’ پھر ضبط کرکے بولی۔ ‘‘ہائے.... کیا بتاؤں.... آہ.... کیسے بتاؤں.... یہاں وہ کم بخت  گیدڑ آیا تھا.... ہائے .... اس نے کہا، ایک بچہ پھینک دو....؟ بتاؤ میں کیسے پھینک دیتی اپنے بچے.... لیکن وہ دھمکیاں دینے لگا کہ میں سب کو کھا جاؤں گا.... میں نے اس کی دھمکی میں آکر ایک بچہ پھینک دیا.... اس نے پھر دھمکی دی.... آہ، میں نے اپنا دوسرا بچہ دیا.... ہائے.... اس نے پھر دھمکی دی، میں نے اپنا تیسرا بچہ بھی پھینک دیا.... ہائے میں  کیا کروں.... میں جہنم جلی اکیلی وہ گئی.... ہائے میرے پیارے پیارے بچے!’’
ہنس دیر تک خاموش کھڑا، اس شاخ کو غور سے دیکھتا  رہا، جس پر فاختہ بیٹھی بین کر رہی تھی۔ پھر وہ درخت کے نیچے ٹہلنے لگا، جیسے کچھ سوچ رہا ہو، پھر وہ عین اس شاخ کے نیچے آکر خاموش کھڑا ہوگیا جس پر فاختہ بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی لمبی گردن اوپر اٹھالی۔ ایک آنکھ شاخ پر تھی اور دوسری آنکھ زمین پر۔ اس نے اپنے نیچے گرے ہوئے بازو اوپر اٹھائے اور اپنے جسم پر رکھ لیے اور پھر ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے پروں میں چھپا لی۔ فلسفیوں کی طرح گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر جیسے کوئی خیال چمکا ہو۔ اس نے فاختہ سے کہا ‘‘چھوٹی بہن، مجھے تمہاری بپتا سن کر بہت قلق ہوا۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا کہ جب تم اور تمہارے بچے اپنے گھونسلے  میں بحفاظت بیٹھے ہوئے تھے تو یہ ہوا کیوں۔ تمہیں یہ کس نے بتایا کہ گیدڑ درخت پر چڑھ سکتا ہے۔
فاختہ نے جواب دیا ‘‘ہائے....ہائے.... مجھے یہ خود گیدڑ  نے بتایا.... اس نے مجھے  اتنا ڈرایا، اتنی دھمکیاں دیں، اتنا خوفزدہ کیا کہ میں بھول ہی گئی کہ وہ درخت پر چڑھنے کی صلاھیت ہی نہیں رکھتا.... ہائے میں کیسی بےوقوف  تھی.... یہ سب کچھ میری اپنی حماقت سے ہوا....ہائے میں کیا کروں۔’’
ہنس نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘فاختہ بہن، صرف تمہاری حماقت کی وجہ سے نہیں۔ تمہاری شرافت اور سادہ لوحی کی وجہ سے بھی۔ کسی کو اتنا شریف اور سادہ لوح نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال گیدڑ میرے  ہاتھ چڑھ گیا تو اسے وہ مزا چکھاؤں گا کہ یاد کرے گا۔’’
یہ کہہ کر ہنس مڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے  جانے لگا۔ اس نے پھر اپنے پروں کو جسم پر اس طرح پھیلا لیا، جس طرح ہنس چلتے وقت پھیلایا کرتے ہیں۔ اچانک اس کے چلنے کی رفتار آہستہ ہوگئی، جیسے وہ گہری سوچ میں پڑا ہوا ہو۔ قریب کی جھاڑیوں سے سرسراہٹ کی آواز پیدا ہوئی تو وہ چوکنا ہوگیا۔ اس نے اپنے پر یوں پھیلا لیے کہ اگر کوئی ناگہانی آفت آئی تو وہ فضا میں پرواز کرجائے گا۔ اس نے دیکھا کہ یہ تو گیدڑ ہے اور گیدڑ سے  بھلا کیا ڈرنا۔
جس کے پاس تو نہ کوئی سچائی ہو، نہ کوئی نیکی، وہ تو سخت بزدل ہوتا ہے اور بزدل مکار ہوتا ہے، کیونکہ مکار بزدل ہوتا ہے۔ ہنس نے پھولے ہوئے پر اپنے جسم پر اطمینان سے سمیٹ لیے۔  یوں لگ رہا تھا جیسے گیدڑ  بہت دور سے ہانپتا کانپتا، دوڑتا آرہا ہو۔ اس کی زبان لٹکی ہوئی تھی اور منہ سے رال بہہ رہی تھی۔
ہنس سکون سے خاموش کھڑا رہا۔ اس نے اپنی گردن اوپر اٹھالی، یوں کہ اس کی ایک آنکھ اوپر کی طرف دیکھ رہی تھی، اور دوسری آنکھ گیدڑ پر جمی ہوئی تھی۔
گیدڑ اس جمی ہوئی آنکھ سے کسی قدر سرا سیمہ ہوگیا۔ ‘‘آداب بجا لاتا ہوں دادا جان۔ آپ سے یوں اچانک مل کر بہت خوشی ہوئی۔’’ اس نے اپنی زبان منہ میں کرلی۔ پھر جھاڑیوں کی طرف کھسکنے لگا۔
ہنس نے اس کی طرف پر معنی نگاہ سے دیکھا  اور کہا۔‘‘برخوردار، ایسا کون سا دور دراز کا سفر طے کرکے آئے ہو کہ اس طرح ہانپ رہے ہو....؟’’
گیدڑ نے اپنی زبان پھر منہ میں کرلی۔ لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں، اس کی زبان پھر خود بخود باہر نکل آئی اور سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ اس نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔
‘‘ہائےہائے.... میری ایک بیوی ہے۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میں بہت دور پہاڑوں میں رہتاہوں.... ہائے ہائے.... 
میرا ایک بچہ بیمار ہے۔ اس کے لیے پرہیزی کھانا لینے نکلا ہوں.... اس کے لیے خوراک ڈھونڈتے ڈھونڈتے اتنی دور نکل آیا ہوں۔ تھک گیا ہوں۔ پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہیں.... ہائے ہائے.... لیکن دادا جان، میں دیکھ رہا ہوں، آسمان پر گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ طوفان آنے والا ہے۔
ہنس نے کہا۔ 
‘‘ہاں تمہیں فوراً پہنچ جانا چاہیے۔ لیکن تم زمین پر ٹانگوں سے چلنے والے لوگ بہت سست ہوتے ہو۔ ہم پرندے اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں۔ فاصلے ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔’’
گیدڑ نے اپنا لب و لہجہ فوراً نرم اور خوشامدانہ کرلیا۔‘‘بےشک، تم لمبے پروں والے ہم چھوٹی ٹانگوں والوں کے لیے قابل رشک ہو۔ میں ہمیشہ  ہی سے ان پرندہ لوگوں سے حسد کرتا  رہا ہوں۔’’
ہنس نے کہا۔ ‘‘ارے بھئی اس میں حسد کرنے کی کیا بات ہے۔ کل صبح اسی وقت اسی جگہ تم پہنچ جانا۔ جس طرح میں نے اپنے بچوں کو اڑانا سکھایا ہے، تمہیں بھی سکھا دوں گا۔’’
گیدڑ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جنگل میں گھس گیا۔
دوسرے روز اسی جگہ مقررہ وقت پر ہنس اور گیدڑ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ گیدڑ ایک گنجان جھاڑی کے پاس کھڑا  رہا اور ہنس کبھی لمبے لمبے اور کبھی چھوٹے چھوٹے ڈگ بھرتا ہوا چہل قدمی کرنے لگا۔ پھر جیسے کچھ سوچتا ہوا بولا۔
‘‘گیدڑ میاں، اگر تم واقعی اڑنا سیکھنا چاہتے ہو، یعنی سچے دل سے، تو پھر جیسا کہتا ہوں، ویسا کرتےجاؤ۔’’
گیدڑ نے کہا۔ ‘‘آپ میرے استاد، میں آپ کا شاگرد۔ جیسا حضور فرمائیں گے، ویسا ہی کروںگا۔’’
ہنس نے کہا۔ تو  سامنے وہ گوندی کا درخت دیکھ رہے ہونا، جس میں گوند رس رہا ہے۔ درخت پر جاؤ اور اپنا جسم اس پر اتنا گڑو کہ تمہارے ایک ایک بال پر گوند چپک جائے۔’’
گیدڑ اس درخت تک گیا اور اپنا جسم درخت سے رگڑ کر گوند سے چکنا کرلیا۔ واپس آکر ہنس سے کہا۔ ‘‘یہ اڑنے کی تربیت تو بہت مہنگی پڑی۔ سارے بال چپک گئے۔’’
ہنس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ چپ چاپ اپنے جسم سے پر نوچنے لگا اور ایک ایک پر گیدڑ کے گوند والے جسم سے چپکانے لگا، حتیٰ کہ گیدڑ کے پورے جسم پر، پر لگ گئے اور وہ دنیا کی کوئی اور ہی مخلوق نظر آنے لگا۔ پھر ہنس نے شرارت سے ایک لمبا پر اپنی دم سے اکھاڑا اور گیدڑ کی دم میں ٹانک دیا۔
گیدڑ نے اپنے اوپر نگاہ کی تو اسے بہت اچھا لگا۔ وہ خوش ہوا۔ اترایا۔ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑا ہوکر اچھلنے لگا اور اگلےے پیر اٹھا کر تالیاں بجانے لگا۔
‘‘اوہو جی، میں تو پرندہ بن گیا۔ اب بڑے بڑے فاصلے پلک جھپکنے میں طے کرلیا کروں گا۔’’
گیدڑ نے اڑنے کی کوشش کی، لیکن  اڑ نہ سکا۔ وہ ہنس کے پاس گیا اور بولا۔
‘‘استاد ہوناں۔ ایک گر اپنے پاس رکھ لیا۔ مجھے پرندہ تو پورا بنا دیا، لیکن اڑنا نہ آیا۔ استاد، وہ خاص گُر کیاہے....؟’’
ہنس نے کہا۔ ‘‘ایسی جلدی بھی کیا ہے۔ میں تمہیں وہ خاص گر بھی بتا دوں گا۔ تم میرے بچوں کے برابر ہو، اور جس طرح میں نے اپنے بچوں کو اڑنا سکھایا ہے، اسی طرح تمہیں بھی سکھاؤں گا۔ تم یوں کرو کہ میری پیٹھ چڑھ کر بیٹھ جاؤ۔ پھر میں تمہیں فضا میں لے  اڑوں گا اور اوپر آسمان کی بلندی پر پہنچ کر تمہیں چھوڑ دوں گا، تم اپنے پروں سے اڑنے کی کوشش کرنا، اس طرح تمہیں اڑنا آجائے گا۔ اسی طریقے سے میں نے اپنے بچوں کو بھی سکھایا ہے۔’’
گیدڑ نے کچھ بھی نہ کہا۔ خاموش بیٹھا رہا۔ بےبسی سے پہلے آسمان کی طرف دیکھا پھر ہنس کی طرف پھر آسمان کی طرف پھر ہنس کی طرف۔
ہنس نے کہا۔ ‘‘اگر تم مجھے یوں توہین آمیز نظروں سے دیکھو گے ....تو میں تمہیں اڑنا نہیں سکھاؤں گا۔’’
گیدڑ نے گڑگڑا کر اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ‘‘نہیں سرکار۔ آپ تو میرے استاد ہیں۔ میں آپ کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میں تو اندازہ کر رہا تھا کہ آسمان یہاں سے کتنی دور ہے اور آپ کتنی دور لے  جاکر  مجھے فضا میں چھوڑ دیں گے۔’’
بہر صورت گیدڑ ہنس کی پیٹھ پر مضبوطی سے بیٹھ گیا۔ ہنس نے اپنے  پر پھیلائے، پھیلائے اور فضا میں اٹھا۔ بلند سے بلند تر ہوگیا۔ فضا  کی وسعتوں میں بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس نے گیدڑ سے کہا۔
‘‘گیدڑ میاں اب اڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔’’
گیدڑ نے نیچے زمین پر دیکھا۔ کسان عورتیں جو کھیتوں میں درانتیوں سے فصل کاٹ رہی تھیں، اسے اوپر سے باکل چیونٹیاں سی نظر آرہی تھیں۔
ہنس نے کہا۔ ‘‘جونہی میں کہوں گا اڑو، تم فوراً اپنی ٹانگیں کھول کر فضا میں چھلانگ لگا دینا اور اپنے پروں سے اڑنا شروع کردینا.... اچھا اب اڑو۔’’
یہ کہتے ہی ہنس گیدڑ  کے نیچے سے نکل گیا اور گیدڑ فضا میں یوں ٹانگیں چلانے لگا، کہ اسے شروع میں یوں محسوس ہوا، جیسے وہ اڑ رہا ہے.... لیکن پر ہوا کے زور سے اس کے جسم سے نکل نکل کر فضا میں اڑ رہے تھے۔ صرف پر اڑ رہے تھے اور گیدڑ تیزی سے زمین کی طرف آرہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ تو بےقابو ہو کر نیچے گر رہا ہے۔ اس نے وہیں سے شور مچانا شروع کردیا۔
‘‘اپنی درانتیاں ہٹا لو۔ اپنے کھرپے ہٹا لو۔’’
کھیت میں کام کرتی عورتوں نے یہ ہولناک منظر دیکھا کہ ایک چار ٹانگوں والی مخلوق اڑتے ہوئے پروں میں گھری ہوئی، زمین کی طرف تیزی سے کھنچی چلی آرہی ہے، تو وہ اپنی اپنی درانتیاں وہیں چھوڑ کر، خوفزدہ ہو کر بھاگ گئیں۔
گیدڑ عین درانتیوں کے اوپر گرا۔ اس  کا جسم لہولہان ہوگیا، اور وہ اسی وقت چل بسا۔



جنوبی افریقہ کے انگریزی ادیب اور مجسٹریٹ

کارل چاپیک  1890ءتا 1938ء  




جنوبی افریقہ کے انگریزی ادیب اور مجسٹریٹ فرینک براؤنلی    Frank Brownlee،  2 اگست  1876ء کو  جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن  میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کیپ گورنمنٹ  میں نیٹو منسٹر تھے اور مشنریز کے کاموں کے لیے اسکاٹ لینڈٖ سے جنوبی افریقہ منتقل ہوئے تھے۔  فرینک ہیرالڈ براؤنلی گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا،   نوجوانی میں فرینک کیپ ٹاؤن سے  کنگز ولیمز ٹاؤن آگیا او اپنی  وکالت تعلیم  یہیں ڈیل کالج اور لو ڈیل مشنریز انٹی ٹیوٹ میں حاصل کی   ۔ 1893ء میں اس نے محکمہ انصاف میں ایک کلرک کی حیثیت سے   کام شروع کیا، بعد میں وہ کیپ ٹاؤن عدالت میں اسسٹنٹ مجسٹریٹ بنا، اینگلو بوائر جنگ ک ےدوران وہ  انگریزی فوج میں  شامل رہا، پھر آبائی محکمہ مین تبادلے کے بعد  اسے ٹرانسکی شہر میں مجسٹریٹ کا عہدہ ملا ، انہوں نےٹرانسسوال اور نتال میں آبائی عدالت کے  چیئرمین اور مقامی کمشنر کی خدمات بھی انجام دیں۔  1935ء میں ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے  سیاہ فام لوگوں کے لیے  ہفتہ وار میگزین شایع کیا،  آبائی قانون اور رسوم و رواج  کے بارے میں مضامین  کے ساتھ ساتھ انہوں نے قبائی روایتی داستانوں کو  بھی انگریزی  میں منتقل کیا۔  فرینک براؤنلی کی  لوک  کہانیوں میں کیٹل تھیف (مویشی چور)، کارپورل  وانزی (کارپورل  انجینئر) لائن اینڈ جیکل  اور قانونی کہانیوں میں دوسری بیوی، بے گناہ،   وانا وکیل  بے حد مقبول ہوئیں  ۔  فرینک براؤنلی      نے جنوبی افریقہ کے معروف ادیب سیموئل بونن ہوبسن کی بیٹی سوسنہ ماریہ  سے شادی کی جس سے اس کے دو بیٹے اور  دو بیٹیاں ہوئیں۔ فرینک براؤنلی 11 جون 1952 ء کو پریٹوریا  شہر میں وفات پائی۔ 
زیر نظر کہانی جھوٹ کا جھوٹ  فرینک براؤنلی     کی کہانی  کا ترجمہ ہے جو 1938ء کو انگریزی مجلہ اسپیکٹیٹر میں شیر اور گیڈٖر  کے عنوان سے اور  1985ء میں پینگوئن بک آف ساؤتھ افریکن اسٹوریز میں  فاختہ اور گیدڑ کے نام سے شایع ہوئی ۔ انگریزی زبان میں یہ کہانی آپ مندرجہ ذیل لنک پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ 
 



اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں