مشہور روسی افسانہ نگار  انتون چیخوف  کی کہانی سے ماخوذ

لاٹری ٹکٹ


روسی افسانہ نگار  انتون چیخوف   کے افسانوں کے موضوعات زندگی کے روزمرہ کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔  انسانی کم زوریوں  اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس نے شدید طنز کیا۔ اس کی تحریروں میں مختلف  طبقوں کی تنگ نظری اور سادہ لوحی یوں ریکارڈ ہوگئی ہے کہ جیسے کیمرے نے زندگی کی تصویر کھینچ لی ہو۔ جیسا کہ اس  کہانی میں چیخووف نے ایک شوہر کی نفسیات  دکھائی گئی ہے ....  روس کے ایک جوڑے کی کہانی جو سفید پوشی میں زندگی گزار رہا تھا،  ایک دن پتہ چلتا ہے  کہ بیوی کی خریدی لاٹری کا انعام نکل آیا۔ دونوں پیسے خرچ کرنے اور دنیا گھومنے کا منصوبہ بناتے ہیں،   کچھ دیر کے بعد خاوند  نے سوچا تو اس کی عیاشی کے کسی منظر میں گھریلو بیوی فٹ نہیں ہورہی تھی۔ بے چارگی سے اس نے سوچا، بیویوں کے ساتھ بھی کبھی تفریح ہوسکتی ہے؟ 

اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ خیال یہ تھا کہ لاٹری بیوی نے لی، زیادہ نہیں تو آدھی رقم تو اس کی بنتی ہے۔ امیر ہوجانے کے بعد اس کے رشتے داربھی ملنے آیا کریں گے، ان سب کو برداشت کرنا عذاب بن جائے گا۔ آخر کار خاوند نامدار نے لاٹری کے ٹکٹ پر لعنت بھیجی  اور سوچا کہ، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان ....

ترجمہ میں کہانی کے کرداروں اور جگہوں کے نام تبدیل کردئے گئے ہیں

 زیر نظر  افسانہ  چیخوف کی روسی کہانی    ویگریشن بیلیٹ Выигрышный билет یعنی جیتنے والا ٹکٹ  Winning Ticket کا ترجمہ  ہے ،یہ کہانی آپ روسی اور انگریزی زبان میں  متن اور ویڈیو کی صورت میں مندرجہ ذیل لنک پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ 



ملک کمال صاحب  ایک مڈل کلاس طبقہ کے آدمی تھے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک پوش علاقے میں رہتے تھے۔ اچھی  آمدنی تھی، جس پر وہ صابر و شاکر تھے۔ شام کا ہلکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد صوفے پر اخبار پڑھنے بیٹھ گئے۔ 
‘‘میں تو آج صبح اخبار پڑھنا بھول ہی گئی۔ ’’ ان کی بیگم  نے اسے میز صاف کرتے ہوئے مخاطب کیا۔ 
‘‘دیکھو کیا قرعہ اندازی کی لسٹ آئی ہے ؟’’ 
‘‘او،ہاں رے ،لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کا وقت ختم نہیں ہو گیا ؟’’
‘‘نہیں ،میں نے منگل ہی کو نئی لاٹری  لی ہے’’
‘‘نمبر کیا ہے ؟’’
‘‘لاٹری سیریز 9499 نمبر 26’’
‘‘ٹھیکہے،  دیکھتے ہیں۔ ’’
کمال صاحب  لاٹری پر یقین نہیں رکھتے تھے۔  اصولاً وہ لاٹری لسٹ دیکھنے پر راضی بھی نہ ہوتے لیکن اس وقت وہ بالکل فارغ تھے ،اور اخبار اُن  کی آنکھوں کے سامنے۔ انہون  نے نمبروں کے کالم پر اوپر سے نیچے انگلی پھیری ۔ فوراً ہی جیسے ان  کے شکوک وشبہات کا تمسخر اڑانے کے لئے اوپر سے دوسری لائیں پر ان کی نگاہیں 9499 پر رک گئیں۔ انہیں  اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اخبار ان  کے گھٹنوں پر سے پھسل گیا۔ ٹکٹ کا نمبر دیکھے بغیر، جیسے انہیں  کسی نے ٹھنڈے پانی کی پھوار سے نہلا دیا ہو، انہوں  نے معدے میں خوشگوار سی ٹھنڈک محسوس کی، انہوں  نے اپنی بیگم  کو آواز دی۔
‘‘کلثوم  !9499  تو یہا ں ہے۔’’
 یہ کہتے ہوئے انہوں کی آواز بالکل خالی خالی تھی۔  ان کی بیگم  نے ان کے حیرت زدہ اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کر رہے۔ 
زرد پڑتے ہوئے تہہ کیا ہوا میز پوش واپس میز پر گراتے ہوئے انہوں نے پوچھا ،‘‘9499’’
‘‘ہاں....۔۔ہاں....واقعی....’’
‘‘اور ٹکٹ نمبر ؟’’
‘‘او....ہاں....ٹکٹ کا نمبر بھی لکھا ہے۔ لیکن رکو۔ذرا انتظار کرو۔ سیریز نمبر تو ہمارا ہی ہے۔ بہرحال....’’
بیگم  کو دیکھتے ہوئے کمال  صاحب مسکرائے، اس بچے کی طرح جسے کوئی روشن چمکدار چیز مل گئی ہو۔ ان  کی بیگم  بھی مسکرادیں  ،دونوں ٹکٹ نمبر دیکھے بغیر خوش تھے۔ مستقبل کی خوش بختی کی امید تھی ہی اتنی مزے دار  اور سنسنی خیز۔ 
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد کمال  صاحب  نے پھر کہا ‘‘سیریز تو ہماری ہی ہے۔ اس لئے امید ہے ہم جیتے ہیں۔ یہ محض امید ہی ہے ،پر ہے تو سہی۔ ’’
‘‘اچھا دیکھو ! ’’
‘‘ذرا صبر کرو ۔ ناامید ہونے کے لئے کافی وقت پڑا ہے ،اوپر سے دوسری لائن ہے۔ انعام پانچ  کروڑ روپے   ہے۔ یہ رقم نہیں ،طاقت اور سرمایہ ہے۔  ایک منٹ میں لسٹ دیکھوں گا۔ پھر ....26....آہا’’
‘‘میں کہتا ہوں اگر ہم واقعی جیت گئے تو....’’
دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کو خاموشی سے گھورنے لگے۔ جیتنے کی امید نے انہیں حیران و پریشان کر دیا تھا۔ 
وہ نہ کہہ سکتے تھے نہ خواب دیکھ سکتے تھے کہ انہیں یہ ایک کروڑ روپے  کس لئے چاہیں ....؟  وہ کیا خریدیں گے.... ؟ وہ کہاں جائیں گے ....؟ وہ صرف 9499 اور پانچ کروڑ روپے   کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ 
چشم تصور سے دیکھ رہے تھے لیکن اس خوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے جو ممکن ہو سکتی تھی۔ 
کمال صاحب  اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہل رہے تھے۔ اور جب وہ پہلے جھٹکے سے نکلے  تو انہوں  نے خواب دیکھنے شروع کئے۔ 
‘‘اگر ہم جیت گئے۔ ’’ انہوں  نے کہا ،‘‘یہ ایک نئی زندگی ہو گی ،مکمل کایا پلٹ۔ ٹکٹ تمہارا ہے اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے تین کروڑ کی جائیداد خریدتا۔ ایک کروڑ فوری اخراجات کے لئے،جیسے گھر کی نئی سجاوٹ.... سیروتفریح .... قرض کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ۔ باقی ایک کروڑ  بنک میں رکھ دیتا اور سالانہ  منافع لیتا۔ ’’
‘‘ہاں....جائیداد....اچھا خیال ہے۔ ’’ بیگم نے ہاتھ اپنی گود میں رکھ کر صوفہ پر بیٹھتے ہوئےکہا۔  
‘‘ڈیفنس، گلشن یا   سی سائیڈ کسی اچھے علاقے میں کہیں....سب سے پہلی بات ہمیں بنگلہ یا فارم ہاؤس نہیں چاہیے۔ بلکہ آمدنی میں اضافہ کا سوچناچاہیے۔ ’’
اس طرح کے خیالات ان  کے دماغ پر چھانے لگے۔ ہر ایک پہلے سے زیادہ دلفریب اور شاعرانہ۔ ان تمام تصورات میں وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ پلا ہوا،پُرسکون ،صحت مند اور گرم محسوس کرتا۔ 
گرمیوں کا برف کی طرح ٹھنڈا مشروب پی کر وہ اپنی پشت کے بل سمندر  کنارے گرم ریت پر یا کسی فارم ہاؤس کے  باغ میں لیموں کے درخت کے نیچے لیٹ گئے ، ان کا چھوٹا بیٹا اور بیٹی پاس ہی کھیل  رہے ہیں۔ یا تو وہ ریت کھود رہے ہیں یا باغ میں تتلیاں پکڑ رہے ہیں۔ وہ پرسکون اونگھ رہے ہیں، ان احساسات کے ساتھ کہ انہیں  آج ،کل یا پرسوں بھی دفتر نہیں جانا۔ یا بے کار لیٹے رہنے سے اکتا کر وہ خشک گھاس کے میدان یا   فارم کے کھیتوں میں  نکل  جاتے ہیں۔ یا پھر مچھواروں  کو جال سے مچھلیاں پکڑتے دیکھتے۔ جب سورج غروب ہوتا وہ تولیہ اور صابن لے کر ٹہلتے ٹہلتے غسل کے لئے چلے جاتے۔ جہاں آرام سے کپڑے اتارتا، آہستہ آہستہ اپنے ننگے سینے کو ہاتھوں سے ملتا اور پانی میں گھس جاتے۔ پانی میں شفاف صابن کے دائروں کے قریب چھوٹی مچھلیاں متحرک رہتیں  اور آبی پودے سر اٹھائے ہوتے۔ نہانے کے بعد بالائی والی چائےکے ساتھ رول کا دور چلتا ....شام میں چہل قدمی یا ہمسایوں کے ساتھ گپ شپ۔ 
‘‘ہاں ،جائیداد خریدنا اچھا رہے گا۔’’ بیگم کلثوم  نے کہا۔ وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی۔ 
ان  کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اپنے خیالات سے خوش ہے۔ 
ملک کمال صاحب  نے خزاں کی بارشوں کا تصور کیا۔ سرد شاموں کا اور گرمیوں  کی چھٹیوں کا۔ سرد موسم میں وہ باغ میں یا سمندر  کنارے  زیادہ لمبی چہل قدمی کریں گے  پھر  گرما گرم چائے یا کافی کا بھرا ہوا کپ  پئیں ۔ اس کے ساتھ نمکین    بسکٹس ، لزیذ  گرما گرم پکوڑے  کھائیں اور پھر سگار کا ایک کش لیں گے....
بچے فارم ہاؤس  کے گارڈن سے تازہ پھل  اور سبزیاں  لئے بھاگتے آئیں گے ،جن سے تازہ مٹی کی مہک آرہی ہو گی .... پھر وہ صوفے پر جسم پھیلا کر لیٹ جائیں گے۔ اور وقت گزاری کے لئے کوئی تصویری رسالہ دیکھیں گے یا اس سے اپنا چہرہ چھپا کر اپنی واسکٹ کے بٹن کھول کر اپنے آپ کو نیند کے حوالے کر دیں گے ۔ 
گرمیوں  کی چھٹیوں کے بعد بادلوں والا اداس موسم شروع ہوتا ہے۔ دن رات بارشیں ہوتی ہیں۔  ہوا نم آلود ٹھنڈی ہوتی ہے۔  افسردہ اور غمگین .... درخت  اور  دیواریں رو رہے ہوتے ہیں۔ سڑکیں گلیاں  سب ڈوب جاتے ہیں،  کہیں گھومنا پھرنا نہیں ہوتا ،کئی کئی دن باہر نہیں جا سکتے۔ کمرے کے اندر ہی ٹہلنا پڑتا ہے۔ مایوسی سے کھڑکی کو دیکھتے رہو۔ 
کمال صاحب رکے اور بیوی کو دیکھنے لگے۔ 
‘‘جانتی ہو گرمیوں اور برسات کے  موسم میں شمالی علاقہ جات یا  بیرونِ ملک گھومنا ہی بہتر رہےگا....’’ 
انہوں نے دوبارہ سوچنا شروع کردیا کہ ایسے موسم  میں شمالی علاقہ جات یا ملک سے باہر جانا ، مری، گلگت، سوات....یا لندن، پیرس ....یا سوئٹزرلینڈ ....کتنا اچھا لگے گا۔ 
‘‘میں بھی یقیناً باہر جاؤں گی۔ ’’  بیگم کلثوم بھی چہک کر  بولیں ، ‘‘لیکن ٹکٹ کا نمبر تو  دوبارہ کنفرم کرلو۔ ’’
‘‘صبر ،صبر....’’
وہ پھر کمرے میں چکر لگانے لگے ،اور سوچنے لگے، اگر ان  کی بیوی واقعی باہر ملک گئی تو کیاہوگا ....؟
اکیلے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یا پھر ایسی عورت کے ساتھ جو لاپرواہ سی ہو ،حال میں زندہ رہے نہ کہ ایسی جو سارے سفر کے دوران بچوں کے بارے میں بولتی رہے۔ ہر دھیلے کے خرچنے پر آہیں بھرے۔ 
کمال صاحب نے اپنی بیگم  کا ٹرین میں بہت سارے پارسلوں، ٹوکریوں اور بیگوں کے ساتھ تصور کیا۔ کسی نہ کسی چیز پر افسوس کرتی ،شکایت کرتی کہ ٹرین سے اس کے سر میں درد ہو رہا ہے، بہت زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے۔ اسٹیشن پراسے مستقل ابلے ہوے  انڈوں، پانی ،بریڈ ،مکھن کے لئے بھاگنا پڑے گا۔ وہ صحیح سے کھانا بھی نہیں کھاپائے گی کہ مہنگا بہت ہے۔  کمال صاحب نے  بیوی پر نگاہ دوڑاتے ہوئےسوچا۔
  ‘‘لاٹری ٹکٹ اس کا ہے ، لیکن اس کے بیرون ملک جانے کا فائدہ۔ اس نے باہر کیا کرنا ہے۔ وہ ہوٹل میں بند ہو جائے گی۔ مجھے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔’’
زندگی میں پہلی بار انہوں  نے سوچا کہ اب  کی بیوی کی عمر ڈھل رہی ہے۔ وہ عام سی دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پکانے کی بو سے بھری رہتی ہے۔ جب کہ وہ خود ابھی تک جوان تروتازہ اور صحت مند ہیں ۔ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔
‘‘بے شک یہ بیوقوفانہ سوچ ہے پر وہ ملک سے باہر جائے کیوں.... ؟ اس نے کرنا کیا ہے ....؟ لیکن وہ جائے گی ضرور ....مجھے معلوم ہے .... اس کے لئے سب برابر ہے۔ چاہے وہ لندن  ہو یا لاہور،  وہ ضرور میرے رستے میں رکاوٹ رہے گی۔ میں اس کا محتاج رہوں گا۔ مجھے معلوم ہے جونہی رقم ملے گی وہ عام عورتوں کی طرح رقم کو تالے لگا کر رکھے گی۔ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے گی اور مجھے ہمیشہ رقم کے لئے ترسائےگی۔’’
کمال صاحب  نے اپنی بیوی  کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ تمام بہن بھائی، خالائیں، ماموں چچا سب گھسٹتے پہنچ جائیں گے ،جونہی انہیں ٹکٹ کی خبر ملے گی۔ روتے پیٹتے، خوشامدیں کرتے چہروں پر منافقانہ مسکراہٹیں سجائے ،قابل نفرت لوگ۔ اگر انہیں کچھ دیا جائے تو مزید مانگیں گے اوراگر انکار کرو تو آپ پر لعنت بھیجیں گے اور غیبتیں کریں گے، آپ کو بد دعائیں دیں گے۔
کمال صاحب  نے اپنے رشتہ داروں اور ان کے چہروں کو یاد کیا۔ جن کو ماضی میں وہ غیر جانبداری سے دیکھتے تھے اب وہ لوگ انہیں  قابل نفرت اور گھناؤنے لگے۔ انہوں  نے سوچا یہ سب سانپ اور بچھو  کی طرح ہیں۔ 
انہیں  اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابل نفرت لگا۔ ان  کے  دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ انہوں  نے کینے بھرے دل سے سوچا ،
اسے رقم کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں پھر کنجوس بھی ہے۔ اگر وہ جیت گئی تو مجھے سو سو روپے  پر ٹرخاتی رہے گی۔ اور باقی کہیں تالا لگا کر بند کردے گی۔ 
انہوں  نے بیوی کی طرف دیکھا مسکراہٹ کے ساتھ نہیں بلکہ نفرت سے۔ بیوی نے بھی انہیں  نفرت اور غصے سے دیکھا ،اس کے اپنے خیالی پلاؤ اور پروگرام تھے۔ وہ مکمل طور پر خاوند کے خوابوں کو سمجھ رہی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ کون سب سے پہلے اس کی جیت کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرے گا۔ 
‘‘دوسروں کے پیسے پر خیالی پلاؤ پکانا کتنا اچھا لگتا ہے۔ ’’ ان  کی آنکھوں میں صاف پڑھا جاسکتاتھا
‘‘نہ....نہ....کوشش بھی نہ کرنا۔ ’’
کمال صاحب  نے اپنی بیوی  کی نظریں پڑھیں۔ ان  کے دل میں دوبارہ نفرت نے سر اٹھایا۔ بیوی کو غصہ دلانے کے لئے انہوں  نے اخبار کے صفحہ چار پر جلدی سے نگاہ دوڑائی اور فاتحانہ انداز سے پڑھا۔ 
‘‘سیریز نمبر 94990 ٹکٹ نمبر چھبیس 26 .... ارے نہیں یہاں تو چھیالیس 46 ہے.....’’
فوراً نفرت اور امید دونوں غائب ہو گئے۔   کمال صاحب  نے غصہ سے اخبار کو صفحہ کو پرزہ پرزہ کرڈالا۔ 
  اب دونوں میاں بیوی کو اپنے کمرے تاریک اور چھوٹے لگنے لگے اور شام کا جو کھانا کھایا تھا وہ ان کے معدے پر بوجھ ڈالنے لگا۔ شام لمبی اور تھکا دینے والی محسوس ہونے لگی۔ 
‘‘لعنت  ہے.... ؟’’  کمال صاحب بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ سے بولے۔    ‘‘جہاں قدم رکھو ہر قدم کے نیچے کاغذ کے پرزے اور کوڑے کے زرے آتے ہیں ،کمروں کو کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔ بندہ گھر سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے .ہر دم روح اذیت میں رہتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ میں باہر نکل کر پہلے ہی درخت سے اپنے آپ کو لٹکا لوں گا۔ ’’ 
یہ کہتے ہیں وہ غصہ سے گھر سے باہر نکل گئے۔ 



روسی ادیب ، افسانہ نگار   و  ڈرامہ نویس

انتون چیخوف ۔1860ء-1904ء

روس کا مشہور ادیب،   مصنف،  افسانہ نگار  اور ڈرامہ نویس انتون پاؤلاو چ چیخوف  Anton Pavlovich Chekhov، 29 جنوری 1860ء میں روس کے شہر ٹیگانرگ میں پیدا ہوا ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا ۔ ان کے والد پاول سودا سلف کی ایک چھوٹی دکان چلاتے تھے مگر وہ ایک سخت مزاج  انسان تھے اور اپنی بیوی اور بچوں پر مارپیٹ کرتے تھے۔ چیخوف  کے بچپن کی ناخوشگوار یادیں ان پر تمام عمر حاوی رہیں ۔ چیخوف  اسکول میں داخل ہوئے مگر  تعلیمی میدان میں اوسط درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔البتہ ان کی والدہ محبت کرنے والی خاتون تھیں اور قصہ گوئی کے ذریعے اپنے بچوں کی تربیت کرتی تھیں۔     1876 ء  میں چیخوف کا باپ  دیوالیہ ہونے پر  قرضہ کی ادائیگی کے خوف سے چیخوف کو اکیلا چھوڑ کر اپنے خاندان کے ہمراہ ماسکو بھاگ گیا ۔ چیخوف نے ہمت نہیں ہاری اور ٹیوشن اور چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا رہا اور تین سال بعد ماسکو اپنے خاندان سے جا ملا ۔ وہاں پر اس نے ایک طبی کالج میں داخلہ لے لیا اور  1884ء میں انیس برس کی عمر میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے چیخوف کے قلمی نام سے ایک روزنامے humorous sketches میں کالم  اور مختصر افسانے لکھنے شروع کیے۔  پہلے مجموعے کی کامیابی کے باعث ڈاکٹری ترک کرکے افسانے اور ڈرامے لکھنے شروع کیے۔  اسے ٹی بی کا مرض بھی لاحق ہو گیا جو اس نے اپنے خاندان سے چھپائے رکھا  اور اسی مرض میں 15جولائی 1904 کو  جرمنی کے شہر بیدینويلر میں  انتقال کرگیا ۔  چیخوف کو جدید افسانہ نگاری کا بابا  سمجھا جاتا ہے اور ان کہانیاں دنیا کے مبصرین اور ناقدین میں بہت احترام کے ساتھ سراہی جاتی ہیں۔ 
چیخوف   کے تمام افسانوں کا رجحان زندگی کے روزمرہ کے معاملات کی طرف ہوتا۔  انسانی فطرت اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس نے شدید طنز کیا۔ اس کی تحریروں میں سب طبقوں کی تنگ نظری اور سادہ لوحی یوں ریکارڈ ہوگئی ہے کہ جیسے کیمرے نے زندگی کی تصویر کھینچ لی ہو۔ 

اس بلاگ پر انتون چیخوف کی تحریریں