|
اس کہانی کا ایک اور اردو ترجمہ نیلا کاغذ کے نام سے توراکینہ قاضی نے کیا ہے۔ جو جولائی 1984 کے اردو ڈائجسٹ میں شایع ہوا۔ اس کا لنک ملاحظہ فرمائیں https://www.mediafire.com/download/lmgkgafimi2rtqs |
‘‘آپ کے لیے بہت ضروری ہے کہ اپنے آپ کو غم اور غصے کے اثرات سے محفوظ رکھیں۔’’ ڈاکٹر مینل Dr Meynallنے اپنے مخصوص انداز میں کہا....
مسز میری ہارٹر Mary Harterکے بشرے سے معلوم ہوتا تھا، اس قسم کی باتوں سے اطمینان کے بجائے اس کے شک و شبہے میں اضافہ ہورہا ہے۔
‘‘آپ کا دل بےشک کمزور ہے، مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔’’ ڈاکٹر نے بات جاری رکھی۔
‘‘بہرحال آپ اپنے مکان میں لفٹ ضرور لگوالیں.... کیوں....آپ کا کیا خیال ہے....؟’’
ڈاکٹر مینل غریبوں کے بجائے امیروں کا علاج کرنا بے حد پسند کرتا تھا۔ شاید اس لیے کہ امیر لوگ اس کی ہدایات پر بلا چون و چرا عمل کرتے۔
‘‘ہاں تو، لفٹ ضروری ہے۔’’ ڈاکٹر نے اپنا سامان لپیٹتے ہوئے کہا ‘‘اس طرح آپ محنت اور تھکاوٹ سے بچ جائیں گی۔تھوڑی سی ورزش بری نہیں لیکن سیڑھیاں چڑھنے سے اجتناب کریں اور سب سے اہم یہ کہ اپنے دل و دماغ پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالیں۔ بس یہی طریقہ ہے اپنی صحت کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنےکا۔’’
ڈاکٹر، مسز ہارٹر کے بھتیجے چارلس ریجوے Charles Ridgewayکو ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا ‘‘گو آپ کی آنٹی کی صحت بہت خراب ہے اور دل کمزور ہوچکا ہے، لیکن پرہیز اور ہدایات پر عمل کرکے خاصے عرصے تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ انہیں پرسکون زندگی گزارنی چاہیے۔ ہر وقت مصروف رہنا چاہیے اور زیادہ سوچ بچار نہ کریں، زیادہ سے زیادہ خوش رہیں تاکہ خیالات بٹے رہیں.... آخر میں ایک بات یاد رہے کوئی معمولی سا صدمہ بھی جان لیوا ہوسکتا ہے۔’’
چارلس بہت ہی سلجھے ہوئے دماغ کا نوجوان تھا۔ خدا نے اسے عقل و ہمت کی بےپناہ قوتیں دی تھیں۔ ڈاکٹر کے الفاظ سے اس کے چہرے پر پریشانی کی پرچھائیاں امڈ آئیں۔
اسی شام چارلس نے گھر میں ریڈیو سیٹ لگوانے کی تجویز پیش کی تاکہ آنٹی کا دل بہلارہے۔ مسز ہارٹر نے مخالفت کی۔ وہ پہلے ہی فکر مند تھیں کہ لفٹ پر خاصے اخراجات اٹھیں گے لیکن چارلس بضد رہا۔
‘‘مجھے نئے زمانے کی چیزیں بالکل پسند نہیں۔’’ مسز ہارٹر نے کہا ‘‘ممکن ہے برقی لہریں میرے دل و دماغ پر اثر انداز ہوں۔’’
‘‘آنٹی، آپ کا خیال غلط ہے، ریڈیو دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ڈالتا، بلکہ اس کی موجودگی آپ کے لیے تفریح کا سامان مہیا کرے گی۔’’ چارلس نے جواب دیا۔
مسز ہارٹر کو بالآخر رضا مند ہونا پڑا اور لفٹ کے ساتھ ہی ساتھ ایک ریڈیو سیٹ بھی گھر میں آگیا۔ چارلس نے آنٹی کو ریڈیو کے تمام رموز اچھی طرح سمجھا دیے۔ وہ بےحد خوش تھی کہ سعادت مند بھتیجا اس کا بےحد خیال رکھتا ہے۔ وہ بھی چارلس سے بےپناہ محبت کرتی تھی۔ قبل ازیں مسزہارٹر نے اپنی ایک بھتیجی میریم Miriam کو اپنے پاس رکھا، وہ اسے وارث بنانا چاہتی تھی لیکن میریم نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت نہ کیا۔ وہ اپنی آنٹی کو خوش نہ کرسکی۔ بچی سے محبت کرنے میں وہ ہمیشہ بخل سے کام لیتی اور اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتی۔ بعدازاں اس نے ایک ایسے نوجوان سے شادی کرلی جس کو مسز ہارٹر ناپسند کرتی تھی۔ نتیجہ یہ کہ مسز ہارٹر نے اسے ماں کے پاس بھیج دیا۔ بھتیجی کو نااہل سمجھ کر اس نے اپنی توجہ بھتیجے کی طرف مبذول کی۔ چارلس کو وہ پہلے ہی سے پسند کرتی تھی۔ وہ بھی اس کا بےحد احترام کرتا۔ گزرے ہوئے دور کے تذکرے بڑی دلچسپی سے سنتا اور ہمیشہ اس کو آرام پہنچانے کی فکر میں رہتا۔
مسز ہارٹر بھی اس کی سعادت مندی پر پھولے نہ سماتی۔ جب پوری طرح مطمئن ہوگئی، تو انہوں نے اپنے وکیل کو نیا وصیت نامہ تیار کرنے کو کہا۔ تھوڑے دنوں میں وصیت نامہ تیار ہوگیا اور مسزہارٹر نے دستخط کرنے کے بعد اسے وکیل کی تحویل میں دے دیا۔
ریڈیو کی بدولت مسز ہارٹر بےحد خوش رہنے لگی۔ وہ جب بھی تنہا ہوتی ریڈیو کے پاس آ بیٹھتی اور دنیا بھر کے اسٹیشن سنتی۔ یہ خوشی بھی چارلس کی مرہون منت تھی، اس لیے اس کے دل میں اپنے بھتیجے کی محبت گویا گھر کر گئی۔
گھر میں ریڈیو آئے تقریباً تین ماہ گزرے تھے کہ ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ چارلس کسی تاش پارٹی میں گیا ہوا تھا۔
مسز ہارٹر کمرے میں اکیلی تھی اور ریڈیو کے سامنے بیٹھی موسیقی سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ اچانک موسیقی کا پروگرام بند ہوگیا اور کمرے میں موت کی سی خاموشی چھا گئی، پھر کسی مرد کی صاف اور شائستہ آواز سنائی دی۔
‘‘میری، کیا تم میری آواز سن رہی ہو، میں ہارٹر بول رہا ہوں.... میں بہت جلد تمہیں لینے آرہا ہوں۔ تیار رہنا۔ تیار ہوگی نا....’’
اس کے بعد موسیقی کا پروگرام پھر شروع ہوگیا۔ مسز ہارٹر کرسی پر حیران و ششدر بت بنی بیٹھی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ کرسی کے بازوؤں پر تھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آواز کیسی ہے۔ کہیں میں نے کوئی بھیانک خواب تو نہیں دیکھا۔ ریڈیو سے اس کے شوہر پیٹرک ہارٹر Patrick Harter کی آواز کیسے آسکتی ہے....؟ اس کو مرے تو عرصہ گزر گیا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ پھر خیال آیا یہ میرے کمزور وہم کا نتیجہ ہے یا ممکن ہے بڑھاپے کی اعصابی کمزوری کی وجہ سے ایسا ہوا ہو، تاہم اس نے اس واقعہ کا ذکر کسی سے بھی نہ کیا اور اسے بھلا دینا چاہا لیکن یہ تھا ہی کچھ ایسی نوعیت کا کہ لاکھ کوشش کے باوجو د ذہن سے محو نہ ہوسکا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہے۔
کچھ عرصے بعد اسی قسم کا دوسرا واقعہ پیش آیا۔ اب کے بھی وہ کمرے میں بالکل تنہا تھی۔ ریڈیو پر آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اچانک خاموشی چھا گئی اور دور سے آتی ہوئی آواز سنائی دی۔
‘‘ہارٹر تم سے مخاطب ہے۔ میں تمہیں لینے کے لیے اب بہت جلد آنے والا ہوں۔’’
آرکسٹرا پھر پہلے کی طرح پورے زور و شور سے بجنے لگا۔ مسز ہارٹر نے گھڑی کی طرف نگاہ دوڑائی رات کے دس بج چکے تھے۔ اس نے اپنے بازو پر چٹکی لی، تو یقین ہوا کہ وہ بیدار ہے، جو کچھ اس نے سنا ہے بیداری کے عالم میں سنا ہے اور اس کے مرحوم شوہر نے اس کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ چارلس نے خلائی لہروں کے متعلق جو لیکچر دیا تھا اس کے الفاظ اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ اس نے سوچا ممکن ہے کوئی بھٹکی ہوئی لہر آسمان تک پہنچ گئی ہو اور ہارٹر کی روح نے اس کے ذریعے مجھ سے رابطہ قائم کرکے ہونے والے واقعہ کی اطلاع دی ہو۔
مسز ہارٹر نے گھنٹی بجائی۔ اس کی خادمہ الزبتھ Elizabethحاضر ہوئی۔
‘‘الزبتھ، میری الماری کی بائیں ہاتھ والی دراز میں سب سامان تیار ہے۔ اس کی چابی اپنے پاس رکھو۔’’ مسز ہارٹر نے ہولے سے کہا۔
‘‘کون سا سامان تیار ہے مادام....؟’’ الزبتھ نے دریافت کیا۔
‘‘میری تجہیز و تکفین کا۔’’ مسز ہارٹر نے کہا۔ ‘‘کیا تمہیں یاد نہیں سامان ٹھیک ٹھاک کرنے میں تم نے میری مدد کی تھی۔’’
‘‘مادام، ایسا خیال دل میں نہ لائیے، اب تو آپ کی صحت پہلے سے بہت اچھی ہے۔’’ الزبتھ نے روتے ہوئے کہا۔
‘‘ہر شخص کو ایک نہ ایک روز مرنا ہے۔’’ مسز ہارٹر فلسفیانہ انداز میں کہنے لگی۔
‘‘میری عمر اب ساٹھ سال سے اوپر ہوچکی ہے۔ تم بےوقوف ہو کہ روتی ہو، بھلا بڑھاپے کے بعد بھی کسی پر جوانی کے دن آئے ہیں....؟ زندگی کا تو فقط ایک ہی انجام ہے اور وہ ہے موت۔ اس منزل تک سب کو جانا ہے۔’’
الزبتھ روتی ہوئی کمرے سے چلی گئی۔ مسزہارٹر نے محبت سے اس کی طرف دیکھا۔ ‘‘بہت خدمت گزار اور مخلص عورت ہے، اس نے میری بڑی خدمت کی ہے۔ ’’ مسز ہارٹر نے دل میں سوچا، نہ معلوم وصیت میں اس کے لیے میں نے کتنے پونڈ چھوڑے ہیں، غالباً پچاس۔ اس کو سوپونڈ ملنے چاہئیں۔ یہ میرے پاس عرصے سے کام کر رہی ہے۔’’ اس نے دل ہی دل میں کہا۔
دوسرے دن مسز ہارٹر نے اپنے وکیل کو خط لکھا کہ وصیت نامہ بھیج دے وہ دیکھنا چاہتی ہے اور الزبتھ کے لیے زیادہ رقم درج کرنا چاہتی ہے۔
اسی دن دوپہر کے کھانے کے دوران چارلس نے ایک حیرت انگیز بات کہی۔
‘‘آنٹی۔’’ چارلس نے پوچھا۔ ‘‘اسلحے کے کمرے میں انگیٹھی پر کسی شخص کی تصویر رکھی ہے، پینٹ کوٹ پہنے بڑی بڑی مونچھوں والا یہ آدمی تو بالکل مسخرہ لگتا ہے۔’’
‘‘یہ تمہارے چچا پیٹرک ہارٹر کی جوانی کی تصویر ہے۔’’ مسز ہارٹر نے کہا۔
‘‘آنٹی مجھے معاف کردیجیے، میں نے چچا کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے۔ دراصل مجھے اس بات پر حیرت ہے....’’ چارلس ایک دم کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
‘‘چارلس، تمہیں کس بات پر حیرت ہے....؟ آخر تم کیا کہنا چاہتے ہو....؟’’ مسزہارٹر نے پوچھا۔
‘‘کوئی بات نہیں آنٹی، میرا خیال ہے مجھے دھوکا ہوا ہے۔’’ چارلس نے مبہم سا جواب دیا۔
‘‘چارلس، میری خواہش ہے جو بات تم کہتے کہتے رک گئے تھے، وہ مجھے بتاؤ۔’’ مادام نے بےچین ہوتے ہوئے کہا۔
‘‘چچی جان، ایسی کوئی بات نہیں، آپ کو بالکل فکر مند نہیں ہونا چاہیے، میرا خیال ہے کہ یہ میری نظر کا دھوکا ہے۔’’ چارلس نے تجسس بھرے لہجے میں کہا۔
‘‘چارلس ....میں حکم دیتی ہوں کہ میری بات کا جواب دو۔’’ مادام نے قدرے غصے میںکہا۔
‘‘آپ تو خواہ مخواہ ناراض ہونے لگیں چچی جان، دراصل بات یہ ہے کہ میں نے تصویر والے آدمی کو پچھلی رات دیکھا ہے۔’’ وہ کونے والا کمرہ ہے نا، اس کی کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔ صبح میری نظر تصویر پر پڑی۔ میں نے فوراً پہچان لیا، وہ شخص اس انگیٹھی والی تصویر سے حیران کن مشابہت رکھتا تھا۔ ممکن ہے یہ سب نظر کا دھوکا ہو۔ لیکن چچی جان، پہلے تو مجھے ایسا دھوکا کبھی نہیں ہوا....’’
‘‘تم نے انہیں کونےو الے کمرے میں دیکھا تھا....؟’’ مسز ہارٹر نے دوبارہ دریافت کیا۔
وہ بےحد حیران تھی، کونے والا کمرہ اس کے شوہر کا ڈریسنگ روم تھا۔ اس نے سوچا شاید اس کے خاوند کی روح ابھی تک ڈریسنگ روم میں موجودہے۔
شام کے وقت چارلس گھر میں نہ تھا، مسز ہارٹر بےچینی کے عالم میں ریڈیو کے پاس بیٹھی پراسرار آواز کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا خیال تھا تیسری بار بھی وہی آواز آئی، تو اس بات میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی کہ اب وہ دنیا میں چند روز کی مہمان ہے۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور جب ریڈیو کا پروگرام بند ہوگیا، تو اسے ذرا بھی حیرت نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد آئرش لہجے میں بہت دور سے آتی ہوئی مخصوص آواز سنائی دی۔
‘‘میری، میرا خیال ہے تم بالکل تیار ہو.... میں جمعہ کو آؤں گا.... رات کے نو بجے ڈرنا مت.... تم کو کوئی تکلیف نہ ہوگی.... بس تیاررہنا۔’’
پھر فوراً ریڈیو پروگرام شروع ہوگیا۔ مسز ہارٹر کرسی پر بےحس و حرکت بیٹھی رہی۔ اس کا رنگ سفید پڑ گیا۔ بڑی مشکل سے اٹھی اور لکھنے کی میز پر جا بیٹھی۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لکھا۔
‘‘آج رات سوا نو بجے میں نے صاف طور پر اپنے مرحوم شوہر کی آواز سنی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ جمعہ کی رات کو نو بجے مجھے لینے آئے گا.... اگر اس روز میں مرجاؤں، تو میری خواہش ہے کہ اس کا تذکرہ سب لوگوں سے کردیا جائے تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ روحوں کی دنیا سے ربطہ قائم کیاجاسکتا ہے۔’’
اس نے ایک بار تحریر کو غور سے پڑھا، اسے لفافے میں بند کیا اور گھنٹی بجائی۔ تھوڑی دیر کے بعد الزبتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ مسز ہارٹر کرسی سے اٹھی۔ لفافہ الزبتھ کو دیا اور بولی۔
‘‘الزبتھ، اگر جمعہ کی رات کو میں مر جاؤں تو یہ لفافہ ڈاکٹر مینل کو دے دینا۔ اس سلسلے میں مجھ سے کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے معاملات کو اچھی طرح سمجھتی ہوں.... ہاں! میں نے اپنے وصیت نامے میں تمہارے لیے پچاس پونڈ چھوڑے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ تمہیں سو پونڈ ملیں۔ اگر میں مرنے سے پہلے بینک نہ جاسکی، تو چارلس میرے مرنے کے بعد انتظام کردے گا۔’’
دوسرے روز مسز ہارٹر نے چارلس سے کہا ‘‘اگر اس کو کوئی حادثہ پیش آجائے، تو الزبتھ کو مزید پچاس پونڈ دے دیے جائیں۔’’
‘‘چچی آپ کو وہم ہوگیا ہے۔’’ چارلس نے تسلی دیتے ہوئے کہا ‘‘آپ بالکل صحت مند ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم آپ کی سوویں سالگرہ منائیں۔’’
مسز ہارٹر نے چارلس کو کوئی جواب نہ دیا۔ صرف مسکراتی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد بولی ‘‘چارلس جمعہ کی شام کو تمہارا کیا پروگرام ہے....؟’’
‘‘میرے ایک دوست نے تاش کھیلنے کے لیے دعوت دی ہے۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں گھر پر رہوں، تو نہیں جاؤں گا۔’’ چارلس نے کہا۔
مسز ہارٹر نے کہا ‘‘نہیں، نہیں میری یہ خواہش نہیں، میں اس رات بالکل تنہا رہنا چاہتی ہوں۔’’
999
جمعہ کی شام گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مسز ہارٹر معمول کے مطابق کرسی پر انگیٹھی کے قریب بیٹھی تھی۔ وہ کوچ کی تیاری کر چکی تھی۔ صبح بینک بھی گئی اور پچاس پونڈ نکلوا کر الزبتھ کو دے دیے.... مادام نے اپنی تمام چیزیں ٹھیک کرکے رکھ دی تھیں۔ اس نے ایک بڑا سا لفافہ کھولا اور اندر سے تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا، یہ وصیت نامہ تھا جو اس کے وکیل نے ہدایت کے مطابق بھیجا تھا۔ ایک بار پڑھ لینے کے بعد دوبارہ غور سے نظر ڈالی۔ یہ ایک مختصر سا مراسلہ تھا جس میں اس نے پچاس پونڈ کا ترکہ الزبتھ کے نام اور پانچ پانچ سو پونڈ کے دو ترکے دو بہنوں کے نام چھوڑے تھے اور باقی سب کچھ اپنے پیارے بھتیجے چارلس کے نام لکھ دیا تھا۔ اس نے اپنا سر کئی بار ہلایا۔ وہ سوچ رہی تھی اس کی وفات کے بعد چارلس بہت امیر آدمی بن جائے گا۔
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، نو بجنے میں تین منٹ باقی تھے، وہ بالکل تیار تھی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ آخر نو بج گئے۔ اس نے بےچینی سے ریڈیو کا بٹن دبا دیا، وہ آج پھر اس خصوصی آواز کی منتظر تھی لیکن کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ایک سرد لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی، تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز آئی اور قدموں کی چاپ سنائی دی، پھر آنے والا چلتے چلتے رک گیا اور دروازہ آہستہ سے کھلا، خوف سے مسز ہارٹر کا جسم کانپنے لگا۔ اس کی آنکھیں ادھ کھلے دروازے پر جم گئیں۔ دفعتاً اس کا ہاتھ لڑکھڑایا اور وصیت نامہ سامنے جلتی ہوئی انگیٹھی میں جاگرا۔ اس کے منہ سے ایک خوف ناک چیخ نکلی۔ کمرے کی مدھم روشنی میں ایک جانی پہچانی صورت کھڑی تھی ‘‘آخر ہارٹر اس کو لینے کے لیے آہی گیا۔’’ اس کا دل ڈوبنے لگا اور وہ کرسی سے گر پڑی۔
999
ڈاکٹر مینل کو بلایا گیا۔ چارلس کو بھی تاش پارٹی پر اطلاع دی گئی، لیکن دوا دارو کرنے سے پہلے ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ چچی کی موت چارلس کے لیے بہت بڑا صدمہ تھی۔
دوسرے دن الزبتھ نے مسٹر ہارٹر کا خط ڈاکٹر مینل کو دیا۔ ڈاکٹر نے بڑی دلچسپی سے اسے پڑھا اور کہا ‘‘ایسا معلوم ہوتا ہے تمہاری مالکہ اپنے شوہر کو تصور میں دیکھا کرتی تھی اور اس سے باتیں کرتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔’’
اگلی رات جب گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور سب لوگ بےخبر سو رہے تھے، چارلس آہستہ سے اٹھا اور چوری چھپے اپنی چچی کے کمرے میں گیا اور ایک تار جو ریڈیو کے بکس سے اس کے کمرے تک چلا گیا تھا الگ کردیا.... شام کو سخت سردی تھی، چارلس نے اپنے کمرے میں آگ روشن کی اور اپنی مصنوعی داڑھی اور مونچھیں اس میں پھینک دیں اور اپنے چچا کے کچھ پرانے کپڑے ایک صندوق میں چھپا کر رکھ دیے۔
ریڈیو کی اسکیم چارلس کے زرخیز ذہن میں اس وقت پیدا ہوئی جب ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی مسز ہارٹر کی جان لے سکتا ہے۔
بہرحال اس کامنصوبہ کامیاب رہا۔ مسز ہارٹر کی تجہیز و تکفین بخیر و خوبی ہوگئی اور چارلس پر کسی کو شک بھی نہ گزرا۔
چند روز بعد الزبتھ نے چارلس کو اطلاع دی کہ مسز ہارٹر کا وکیل ملنے آیا ہے۔ چارلس تو اس وقت کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا۔ وہ دوسرے کمرے میں پہنچا۔ اس نے وکیل کو خوش آمدید کہا۔ وکیل ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔
‘‘مسٹر چارلس، آپ نے جو خط میرے نام لکھا، میں اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔ آپ کو شاید یہ خیال ہے کہ مسز ہارٹر کا وصیت نامہ میرے پاس ہے۔’’
‘‘ہاں، میرا تو یہی خیال ہے۔’’ چارلس نے کہا۔ ‘‘چچی نے مجھے یہی بتلایا تھا۔’’
‘‘انہوں نے بالکل ٹھیک کہا تھا، ان کا وصیت نامہ پہلے میرے پاس ہی تھا۔’’ وکیل نے جواب دیا
چارلس نے بےچینی سے کہا ‘‘کیا مطلب؟ پہلے پاس تھا اور اب نہیں....؟’’
‘‘جی ہاں۔’’ وکیل نے جواب دیا۔
‘‘مسزہارٹر نے مجھے لکھا تھا کہ وصیت نامہ ان کو واپسی بھیج دیا جائے۔’’
یہ سن کر چارلس بےچین ہوگیا۔
وکیل نے پوچھا ‘‘کیا آپ نے ان کی ذاتی چیزوں میں وصیت نامہ تلاش کیا ہے....؟’’
چارلس نے جواب دیا ‘‘جی ہاں، الزبتھ نے ان کی ذاتی چیزوں میں کافی تلاش کیا، مگر نہیں ملا۔’’
وکیل نے الزبتھ کو بلایا۔ الزبتھ نے بتایا کہ مسز ہارٹر کی وفات کے بعد اس نے انگیٹھی میں جلے ہوئے کاغذ اور لفافے کی راکھ دیکھی تھی۔
چارلس کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
وکیل کچھ سوچ کر کہنے لگا
‘‘میرا خیال ہے، آخری دنوں میں مادام آپ سے ناراض ہوگئی ہوں گی، چنانچہ انہوں نے وصیت نامہ نذر آتش کرنے کے لیے واپس منگوالیا۔’’
‘‘جی نہیں....! وہ آخر تک مجھ سے بےحد خوش تھیں۔’’ چارلس نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سےکہا۔
دفعتاً چارلس کی آنکھوں میں چچی ہارٹر کی موت کا منظر گھوم گیا۔ مسز ہارٹر ایک ہاتھ سے اپنا دل پکڑے بیٹھی تھی اور دوسرے ہاتھ سے ایک کاغذ پھسل کر دہکتی ہوئی آگ میں جاگرا۔ چارلس کا چہرہ بالکل سفید پڑ چکا تھا۔ اس نے گھبرائی ہوئی آواز میں وکیل سے پوچھا۔
‘‘اگر وصیت نامہ نہ ملا تو کیا ہوگا....؟’’
وکیل نے جواب دیا ‘‘ان کے پرانے وصیت نامے پر عمل درآمد کیا جائے گا جس کی رو سے ان کی تمام جائیداد کی وارث ان کی بھتیجی میریم ہے۔’’
وکیل کے جانے کے بعد چارلس بےحد پریشان نظر آتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اس کی تمام ہوشیاری اور چالاکی کسی دوسرے کے حق میں مفید ثابت ہوئی۔ وہ خیالات میں غرق تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ڈاکٹر مینل کا فون تھا، وہ کہہ رہا تھا مسز ہارٹر کی پوسٹ پارٹم رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ اس کا دل بےحد کمزور ہوچکا تھا اور وہ اس ناکارہ دل کے سہارے زیادہ سے زیادہ صرف دو ماہ تک زندہ رہ سکتی تھی۔’’
چارلس نے سر پیٹ لیا۔ کاش اس نے دو ماہ انتظار کرلیا ہوتا۔ اس کا ضمیر ملامت کرنے لگا۔ اس نے سوچا ، اپنی چچی کو ریڈیو کے ذریعے قتل کرکے میں نے بھیانک گناہ کیا ہے۔ اس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی، ذہن پر ہر وقت خیالات کا ہجوم رہتا۔ رفتہ رفتہ وہ اعصابی بیماری میں مبتلا ہوگیا۔ ایک روز ایسی ہی پریشانی کے عالم میں ایک تحریر تیار کی جس میں اس نے ایک کاغذ پر لکھا....
‘‘میری چچی اپنی موت نہیں مری تھی، بلکہ میں نے قتل کیا تھا۔’’ یہ لکھ کر اس نے زہر سے بھرا ایک چمچ حلق میں انڈیل لیا۔جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ |
آگاتھا کرسٹی ۔1890ء تا 1976ء |
جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ، آگاتھا کرسٹی Agatha Christie کا پورا نام اگاتھا میری کلیریسا ملر تھا ، آگاتھا 1890ء میں انگلینڈ کے علاقے ٹارکی Torquay میں پیدا ہوئیں، اور1976ء میں آکسفورڈ شائر، انگلینڈ میں وفات ہائی۔ انہیں جاسوسی کہانیاں لکھنے والی تاریخ کی عظیم ترین مصنفہ کہا جاتا ہے، اس بات کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گنیز بک آف ریکارڈ کے مطابق دنیابھر میں شیکسپئیر کے بعد یہ واحد مصنفہ ہیں جن کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئی ہیں۔ 2006ء کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے ایک ارب سے زائد نسخے فروخت ہوئے تھے ۔ انہوں نے کل 66 جاسوسی ناولزاور 153مختصر کہانیوں کے 14 مجموعے لکھے جو اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ یوں تو آگاتھا کرسٹی جرائم اور سراغ رساں پر مبنی جاسوسی کہانیوں کے لئے جانی جاتی ہیں، لیکن آپ نے میری ویسٹماکوٹ کے قلمی نام سے رومانوی ناول بھی لکھے اور کئی پراسرار ، سنسنی خیز اور ماورائی کہانیاں بھی تحریر کیں ۔ |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں