|
پراسرار اور عجیب و غریب کہانیوں کے مصنف جان کولیئر کی کہانی Thus I Refute Beelzy کا ترجمہ |
شام کی چائے کا وقت ہوچکا تھا۔
مسز کارٹر نے میز پر چائے کے برتن رکھتے ہوئے اپنی پڑوسن مسز جیکسن سے کہا ‘‘ذرا باغ کی طرف جھانک کر دیکھنا۔ شاید سائمن آرہا ہو۔’’
مسز جیکسن نے اٹھ کر کھڑکی میں سے باغ کا جائزہ لیا۔ اسے باغ کہنا تو محض تکلف تھا، وہ تو کسی وسیع و عریض جنگل کا ایک ایسا حصہ نظر آتا تھا جہاں جھاڑ جھنکار کثرت سے اگا ہوا ہو۔ دور تک خود رو لمبی اور اونچی گھاس کے ریشے ہوا کے جھونکوں سے جب لہراتے ، تو ان کے اندر سے طرح طرح کی ہیبت ناک آوازیں نکلا کرتیں۔ باغ کے کناروں پر ناشپاتی اور سیب کے درخت بھی لگے ہوئے تھے، لیکن شاید ان درختوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی کے پاس وقت نہ تھا۔ درختوں کی شاخیں بڑھ کر آپس میں اس قدر گتھ گئی تھیں کہ ان میں سے کسی ننھے منے پرندے کا گزر بھی محال تھا۔
مسز جیکسن نے نظر جما کر باغ کے اس حصے کا جائزہ لیا جہاں ننھا سائمن گھنٹوں اپنی چھوٹی سی چھڑی ہاتھ میں تھامے گھوما کرتا تھا۔ اسے اس ماحول اور خوفناک جگہ سے بےحد دلچسپی تھی، میں وہ خاص طور پر پایا جاتا جہاں اس کے والدین بھی قدم رکھتے ہوئے گھبراتے تھے۔
ماں باپ نے کتنی ہی بار سائمن کو منع کیا تھا کہ وہاں نہ جایا کرے، مگر اس کو جب بھی موقع ملتا، وہ سیدھا باغ کے اس گھنے حصے میں جاتا۔ کبھی کسی پتھر پر بیٹھ کر اپنے آپ سے باتیں کرتا اور کبھی اپنی چھڑی سے درختوں کی پٹائی کرکے کوش ہوتا۔ بس یہی اس کے مشغلے تھے۔
مسز جیکسن نے بالآخر ننھے سامن کو دیکھ ہی لیا۔ وہ گھنی جھاڑیوں کے اندر کسی پرندے کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
‘‘خدا کی پناہ! مسز کارٹر....!’’ مسز جیکسن نے جھر جھری لیتے اور اپنے چہرے پر خوف کے آثار پیدا کرتے ہوئے کہا۔ ‘‘کتنی ہولناک جگہ ہے.... اور اتنا چھوٹا سا بچہ وہاں جاکر گھنٹوں کھیلتا ہے۔ کیا تم اسے سمجھا نہیں سکتیں کہ ایسی جگہوں پر بچے نہیں جایا کرتے....؟’’
مسز کارٹر نے جواب میں گہری سرد آہ بھری اور انتہائی تشویش خیز لہجے میں کہا ‘‘کیا کروں، مسز جیکسن....؟ میں تو سائمن کو سمجھاتے سمجھاتے عاجز آگئی، مگر یہ ایسا ضددی بچہ ہے کہ کوئی نصیحت اس پر کارگر نہیں ہوتی۔ جب میں پوچھتی ہوں تم وہاں اجاڑ باغ میں جاکر اتنی اتنی دیر کیا کرتے ہو، تو وہ ہنس کر کہتا ہے کہ میں تو مسٹر بلزی سے باتیں کیا کرتا ہوں.... مسٹر بلزی بہت پیارے آدمی ہیں، مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں.... نہایت دلچسپ آدمی ہیں مسٹر بلزی....’’
‘‘مسٹر بلزی....؟’’ مسز جیکسن نے سوالیہ نشان بن کر کہا ‘‘کون ہے یہ مسٹر بلزی....؟ ہم نے تو اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔’’
‘‘دیکھا تو ہم نے بھی نہیں۔’’ کئی بار میں نے پیار سے سائمن کو سمجھایا کہ بیٹا، اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلا کرو.... آخر مسٹر بلزی سے تمہارا کیا واسطہ....؟ لیکن خدا جانے مسٹر بلزی نے سائمن پر کیا جادو کر رکھا ہے کہ وہ کبھی گلی محلے کے بچوں میں نہیں جاتا۔ سیدھا تیر کی طرح باغ کے اس گھنے حصے میں پہنچتا ہے.... بار ہا میں نے اس کے تعاقب میں جا کر دیکھنا چاہا کہ یہ مسٹر بلزی ہیں کون ذات شریف، لیکن کچھ پتا نہیں چلتا....’’
‘‘تعجب ہے! سخت تعجب ہے!’’ مسز جیکسن نے آنکھیں گھما کر کہا۔ ‘‘تو کیا سائمن دوپہر کو بھی گھر میں آکر نہیں سوتا، حالانکہ سب بچے دوپہر کے وقت اپنے اپنے گھروں میں آرام کیا کرتے ہیں....؟ میرا تو خیال یہ ہے کہ سائمن دوسرے تمام بچوں سے نرالا ہے۔’’
‘‘اسے کوئی ایسا ویسا نرالا!’’ مسز کارٹر نے منہ بنا کر کہا۔ ‘‘بھئی، سچ پوچھو تو یہ سب کیا دھرا سائمن کے باپ کا ہے۔ انہوں نے لاڑ پیار کرکے ایسا بگاڑا کہ وہ اب میری بات سنتا ہے نہ اپنے باپ کا کہا مانتا ہے۔ بڑے سائمن کا خیال ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بچے سدھرتے نہیں، اور زیادہ بگڑتے ہیں۔ انہوں نے نہ جانے کہاں کہاں سے بچوں کی نفسیات پر کتابیں منگوا کر پڑھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ بچے پر پابندی مت لگاؤ.... اسے اپنا راستہ خود بنانے دو.... ذہنی طور پر اسے بالکل آزاد رہنے دو.... کسی سرگرمی میں رکاوٹ نہ بنو.... وغیرہ وغیرہ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح بچے میں خود اعتمادی بڑھتی ہے، کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتاہے....’’
‘‘بہت خوب! تب تو واقعی سارا کیا دھرا مسٹر سائمن کا ہے.... بچے کو یوں شتر بےمہار نہ بنانا چاہیے۔’’ مسز جیکسن نے کہا ‘‘ہاں، اور کیا.... خود تو وہ مزے سے اپنے کلینک پر مریضوں کے دانت اور ڈاڑھیں نکالتے رہتے ہیں اور میں ننھے سائمن کی فکر میں گھلی جاتی ہوں۔ جب بھی وہ باغ میں سے گھر واپس آتا ہے، میں اس کا چہرہ دیکھ کر لرز جاتی ہوں۔ دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید اور بےجان، جیسے کسی نے سارا خون نچوڑلیاہو....’’
پھر وہ دونوں کھڑکی میں جا کھڑی ہوئیں اور سائمن کو نگاہوں ہی نگاہوں میں ڈھونڈنے لگیں۔
‘‘وہ دیکھو! چلا آرہا ہے اپنی چھڑی گھماتا ہوا....’’ مسز کارٹر نے کہا ‘‘تم خود دیکھنا اس کی حالت اور اندازہ کرنا۔’’
اور سائمن کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی وہ دونوں اپنی اپنی کرسیوں پر جا بیٹھیں۔ دو منٹ بعد ننھا سائمن گھر میں داخل ہوا۔ اس نے مسز جیکسن کو خوش اخلاقی سے سلام کیا اور چپ چاپ قریبی کرسی پر بیٹھ گیا۔ چھڑی اب بھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ مسز جیکسن نے دزدیدہ نگاہوں سے ننھے سائمن کا چہرہ دیکھا۔ واقعی مسز کارٹر ٹھیک ہی تو کہتی ہیں.... لڑکا دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہے.... اور اس کی شکل تو دیکھو.... بالکل مثلث۔’’
‘‘سائمن بیٹے.... ٹھیک تو ہو....؟’’ مسز جیکسن نے ہنس کر کہا ‘‘آج تم مجھے بےحد پراسرار لگ رہے ہو....’’
سائمن نے اپنی گول گول آنکھیں گھما کر مسز جیکسن کو دیکھا۔ اس کے نتھنے مارے چیش کے پھڑک رہے تھے۔
‘‘دیکھو آنٹی! آئندہ مجھے ایسی بات نہ کہنا، ورنہ مسٹر بلزی....’’ فقرہ اس کے منہ ہی میں رہ گیا۔ دروازہ کھلا اور مسٹر سائمن کارٹر اپنے ہاتھ ملتے ہوئے اندر آئے۔ ڈینٹل سرجن ہونے کی حیثیت سے بار بار ہاتھ دھونے کی عادت اتنی پختہ ہوچکی تھی کہ وہ غیر شعوری طور پر بھی ہر وقت ہاتھ دھوتے رہتے تھے۔ اپنے شوہر کو دیکھتے ہی مسز کارٹر نے حیران ہو کر کہا‘‘خیر تو ہے....؟ آج آپ اتنی جلدی آگئے۔’’
مسٹر سائمن کارٹر نے کود کو کسی تھکے ماندے انسان کی طرح آرام کرسی میں گرادیا اور جھوٹ موٹ ہاتھ دھوتے ہوئے بولے ‘‘ہاں بھئی، ابھی تک تو خیریت ہی ہے۔ آگے کیا ہو، یہ میں نہیں کہہ سکتا.... قصہ یہ ہے کہ آج مجھے دو مریضوں کو دیکھنا تھا، مگر دونوں بدبخت نہیں آئے۔’’
‘‘اور یوں تم خیر سے گھر واپس آگئے۔’’ مسز کارٹر نے ہنس کر کہا۔
‘‘ہاں، گھر کے علاوہ میرے جیسا ایک فرماں بردار شوہر اور جا بھی کہاں سکتا ہے....؟’’ مسٹر سائمن کارٹر نے کہا۔ پھر ان کی نظر اپنے کم سن بیٹے پر جا پڑی۔‘‘معلوم ہوتا ہے سائمن کو ہمارا بےوقت گھر آنا کچھ پسند نہیں آیا۔ کیوں چھوٹے سائمن، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا....؟’’
‘‘ڈیڈی! میں چھوٹا نہیں، بڑا سائمن ہوں۔’’
‘‘ہاہاہا.... تم بڑے سائمن کب سے ہوگئے، بھئی....؟’’ مسٹر سائمن نے قہقہہ لگایا۔‘‘بڑا سائمن تو میں ہوں.... تمہارا باپ....’’
‘‘جی نہیں.... اب میں بھی آپ کی طرح بڑا سائمن ہوں۔ مسٹر بلزی نے مجھے یہی بتایا ہے....’’
‘‘مسٹر بلزی نے تمہیں بتایا ہے! مسٹر سائمن کارٹر نے اک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا اور تیزی سے حسب عادت ہاتھ دھونے شروع کردیے۔ ‘‘میں نے کتنی مرتبہ تم سے کہا ہے کہ مسٹر بلزی کا خیال اپنے ذہن سے جھٹک دو.... مسٹر بلزی....مسٹر بلزی.... یہ نام سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں.... مگر تم ہو کہ باز ہی نہیں آتے....’’
ننھا سائمن خوف زدہ نظروں سے اپنے باپ کو تکنے لگا۔
‘‘سائمن! ذرا نرم لہجے میں بولو.... تم نے خواہ مخواہ میرے بچے کو ڈانٹ دیا.... آج تمہیں کیا ہوگیا ہے....؟’’ مسز سائمن نے کہا۔
‘‘نہیں نہیں.... میں بھلا اپنے بیٹے کو ڈانٹ سکتا ہوں کبھی....؟’’
مسٹر سائمن نے ایک دم اپنا رویہ بدل لیا۔ ‘‘یار سائمن! تم جنگل میں جاکر کیا کرتے ہو....؟ وہ بھی کوئی تفریح کی جگہ ہے....؟ میرا خیال ہے کل سے تم مئیرے کلینک میں آیا کرو.... وہاں بہت دلچسپ لوگ آتے ہیں۔ وہ تمہیں کئی کام کی باتیں سکھائیں گے۔’’
‘‘ڈیڈی....! میں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے....’’ ننھے سائمن نے اکتا کر کہا۔
‘‘کیا سیکھا تم نے....؟ میرا خیال ہے کچھ بھی نہیں۔ جب سارا سارا دن تم باغ کے اس بےہودہ حصے میں جاکر اپنی چھڑی سے درختوں کو پیٹتے رہو گے تو کیا خاک سیکھو گے....؟ اپنا چہرہ کبھی دیکھا ہے تم نے آئینے میں....؟ تمہاری عمر کے بچے کس قدر صحت مند اور شاداب چہرے کے مالک ہوتےہیں۔’’
‘‘ہاں، یہ بات تو ہے!’’ مسز جیکسن نے پہلی بار زبان کھولی۔’’ میں نے سنا ہے سائمن سارا دن باغ ہی میں رہتا ہے۔’’
‘‘سارا دن کہاں....؟ بس تھوڑی دیر کے لیے تو جاتا ہوں.... اور وہ بھی مسٹر بلزی....’’ سائمن نے کہنا شروع کیا، مگر اس کی ماں نے بات کاٹ دی ‘‘جھوٹ مت بولو سائمن! تم صبح سے شام تک باغ میں رہتے ہو۔’’
ننھے سائمن نے کھا جانے والی نظروں سے ماں کو گھورا اور یک لخت اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ مسٹر کارٹر نے بڑھ کر بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے قریب بٹھا لیا۔ ‘‘اوہو، تم تو ذرا سی بات پر رونے لگے.... چلو.... چپ ہوجاؤ....غصہ تھوک دو.... تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو، بےدھڑک مجھ سے کہہ دیا کرو۔ میں بھی ایک دن تمہاری طرح چھوٹا سائمن تھا اور یونہی باغوں اور جنگلوں میں آوارہ گردی کیا کرتا تھا جیسے تم کرتے ہو.... لیکن ان دنوں چابی اور بیٹری سیل سے چلنے والے کھلونے نہیں ہوا کرتے تھے جبکہ آج کل یہ کھلونے کثرت سے بازار میں موجود ہیں۔ تم ان سے جتنی دیر چاہو، کھیل سکتے ہو.... اچھا خیر، اب مجھے بتاؤ کہ باغ میں جاکر تم اکیلے کیا کرتے رہتے ہو....؟’’
ننھے سائمن نے تھوڑی دیر گردن جھکا کر کچھ سوچا، پھر آہستہ سے بولا ‘‘مسٹر بلزی....’’
‘‘کون مسٹر بلزی....؟’’ مسٹر سائمن ضبط کرنے کے باوجود مسٹر بلزی کے نام پر وحشت زدہ ہوگئے۔ ‘‘یہ بدمعاش بلزی کون ہے....؟’’
‘‘یہ دراصل سائمن کا ایک من گھڑت دوست ہے اور کوئی نہیں۔’’ مسز جیکسن نے ہنس کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
‘‘تو چپ رہ بڑھیا....’’ ننھے سائمن نے زور سے مسز جیکسن کو ڈانٹا۔‘‘تجھے کیا خبر مسٹر بلزی کون ہیں....؟خواہ مخواہ بکواس کر رہی ہے۔’’
مسز جیکسن کا چہرہ اس توہین پر مرجھا گیا اور انہوں نے بےبسی سے مسز کارٹر کی طرف دیکھا۔
‘‘دیکھا آپ نے....؟ یہ کس قدر بدتمیز اور گستاخ ہوتا جارہا ہے۔’’ مسز کارٹر نے شوہر سے فریاد کی۔ ‘‘ایک تو اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے، اوپر سے بڑوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا ہے۔ چلو، دفان ہوجاؤ یہاں سے.... خبردار! اپنی شکل پھر مت دکھانا....اور ہاں....مسز جیکسن سے معافی مانگو....’’
‘‘واقعی چھوٹے سائمن، تم نے اس وقت بڑی بدتمیزی کی ہے۔’’ مسٹر سائمن نے کہا۔ ‘‘اپنے بڑوں کو ایسا نہیں کہا کرتے.... مسز جیکسن سے معافی مانگو.... اور سنو! اگر تم اس طرح فرضی مسٹر بلزی کا تصور اپنے ذہن میں پختہ کرتے رہے، تو کبھی بڑے سائمن نہ بن سکو گے، ہمیشہ چھوٹے سائمن ہی رہو گے....’’
بچہ گردن جھکائے خاموشی سے اپنے باپ کی تقریر سنتا رہا، لیکن اس نے مسز جیکسن سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
‘‘ڈیڈی .... آپ یقین کریں مسٹر بلزی فرضی آدمی نہیں.... میں انہیں روز دیکھتا ہوں....’’
‘‘چلو، ہم مان لیتے ہیں کہ تمہارے یہ مسٹر بلزی فرضی آدمی نہیں۔ ’’مسٹر کارٹر نے کہا۔ ‘‘مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ ہیں کون اور ان کا حلیہ کیا ہے....؟’’
لڑکا پریشان ہو کر اپنے باپ کی صورت تکنے لگا۔ آخر اس نے رک رک کر کہا ‘‘مسٹر بلزی.... کسی طرح کے بھی نہیں.... ان کا کوئی حلیہ نہیں....’’
‘‘یہ کیسے ہوسکتا ہے....؟’’ مسٹر کارٹر نے مصنوعی حیرت سے کہا۔ ‘‘آخر دنیا کے کسی آدمی یا کسی چیز سے مسٹر بلزی کی صورت شکل کچھ نہ کچھ ملتی جلتی تو ضرور ہوگی....؟ تمہیں وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں....’’
‘‘کبھی کسی طرح کے اور کبھی کسی طرح کے....’’ ننھے سائمن نے معصومانہ انداز میں جواب دیا۔ ‘‘مسٹر بلزی کی کوئی خاص صورت شکل نہیں ہے۔’’
‘‘کمال ہے بھئی، پھر تو تمہارے مسٹر بلزی انتہائی خطرناک چیز ہیں۔ کیا تمہیں ان سے ڈر نہیں لگتا....؟’’
‘‘نہیں.... بالکل نہیں....’’ ننھے سائمن نے مسکرا کر کہا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ‘‘مسٹر بلزی تو مجھے بےحد پیار کرتے ہیں۔’’
‘‘اچھا یہ بتاؤ.... مسٹر بلزی کوئی جن ہیں یا بھوت پریت....؟’’ مسٹر کارٹر نے ہنس کر پوچھا۔
‘‘میرا خیال ہے، ڈیڈی.... وہ جن بھوت تو نہیں، مگر بن سکتے ہیں....’’ بچے نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
مسٹر کارٹر کا چہرہ معاً پھیکا پڑ گیا ‘‘دیکھو سائمن! خوب سوچ سمجھ کر بتاؤ مسٹر بلزی کی آواز کیسی ہے۔’’
‘‘میں نے ان کی آواز پر کبھی غور نہیں کیا.... کبھی کیسی آواز ہوتی ہے کبھی کیسی....’’
‘‘سنو.... جب تم باغ میں جاتے ہو تو وہاں پہلے کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہوتا....؟’’
‘‘نہیں ڈیڈی! باغ میں کوئی شخص نہیں ہوتا۔’’
‘‘بس تو پھر تم اچھی طرح سمجھ لو کہ مسٹر بلزی صرف تمہارے ذہن کی پیداوار ہیں.... تم ان کے بارے میں چونکہ ہر وقت سوچتے رہتے ہو، اس لیے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے بھی آجاتے ہیں،۔ ‘‘مسٹر کارٹر نے نرم لہجے میں سائمن کو سمجھایا، لیکن اس نے فوراً نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا ‘‘نہیں، ڈیڈی! مسٹر بلزی میرے سوچنے سے نہیں آتے.... بلکہ مجھے اپنی چھڑی سے کچھ کرنا پڑتا ہے، تب وہ آتے ہیں۔’’
مسٹر کارٹر سخت بےبسی اور بےچارگی سے بغلیں جھانکتے ہوئے بولے ‘‘ایسا نہیں ہوسکتا۔’’
‘‘ایسا ہی ہوتا ہے، ڈیڈی!’’ سائمن چلایا۔ اس کے یوں چلانے پر مسٹر کارٹر کو دوبارہ غصہ آگیا۔
‘‘دیکھو بیٹے، ضد چھوڑ دو.... جو بات میں کہتا ہوں، وہ مانو۔ میں عمر میں بھی تم سے بڑا ہوں اور عقل میں بھی۔ چونکہ میں تم سے بہت پہلے اس دنیا میں آگیا تھا، اس لیے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، لہٰذا میں تمہیں سمجھارہا ہوں کہ مسٹر بلزی کی کوئی حقیقت نہیں.... یہ محض ایک وہم ہے تمہارا.... سمجھے....؟’’
ننھا سائمن گردن جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔ مسٹر کارٹر نے خیال کیا شاید ان کی باتیں کارگر ہورہی ہیں، چنانچہ انہوں نے دوبارہ تقریر شروع کردی۔
‘‘ذرا غور تو کرو چھوٹے سائمن، جو چیز ابھی یہاں ہے، ابھی وہاں، کبھی کسی شکل میں ہے کبھی کسی صورت میں، اور تم اسے اچھی طرح دیکھ بھی نہٰن سکتے کہ وہ اصل میں ہے کیا، تم تو اسے چھو بھی نہین سکتے جیسے مجھے یا اپنی ممی کو چھو لیتے ہو....اب بتاؤ مسٹر بلزی فرضی چیز ہیں یا میں اور تمہاری ممی....؟’’
‘‘بڑا سائمن اور چھوٹا سائمن۔ ’’ لڑکا ایک دم یوں ہنسا جیسے اپنے باپ کا مذاق اڑا رہا ہو۔
مسٹر سائمن کو اور تاؤ آیا۔ یہ چھوٹا سا لڑکا تو ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ انہوں نے سخت لہجے میں کہا ‘‘یہ ٹھیک ہے چھوٹے سائمن کہ میں نے تمہیں کھیل کود کی پوری آزادی دے رکھی ہے اور کبھی کسی کام سے منع نہیں کیا، مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ تم خاصے بےوقوف ہوتے جارہے ہو.... بہتر یہ ہے کہ اس وقت سیدھے اوپر اپنے کمرے میں چلے جاؤ اور وہاں جاکر، جو کچھ میں نے کہا ہے اس پر غور کرو۔ ضدی اور بدتمیز مت بنو ورنہ یاد رکھو میں سزا دینا بھی جانتا ہوں۔ ابھی چائے پی کر میں اوپر کمرے میں آؤں گا اور تم سے پوچھوں گا کہ اس بدمعاش مسٹر بلزی کو تم نے بھلایا ہے یا نہیں۔’’
چھوٹا سائمن اٹھ کھڑا ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے سخت نفرت اور حقارت کا اظہار ہورہا تھا چند ثانیے وہ اپنے باپ کو گھورتا رہا، پھر بولا ‘‘ ڈیڈی! اگر آپ نے مجھے سزا دی، تو مسٹر بلزی آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔’’
‘‘میں کہتا ہوں چلے جاؤ اپنے کمرے میں، ورنہ مار مار کر تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا!’’ مسٹر کارٹر کی آنکھیں مارے طیش کے لال ہو گئیں۔ ان کا پورا جسم لرز رہا تھا، جیسے ایک چھوٹے سے بچے کے ہاتھوں شکست کھانا ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہو۔
جاتے جاتے چھوٹا سائمن پھر رکا، زینے پر رک کر اس نے اپنی چھڑی لہرائی اور دھمکی دیتے ہوئے کہا ‘‘مسٹر بلزی نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر کسی شخص نے تمہیں تکلیف دینے کی کوشش کی تو وہ اڑ کر پہنچیں گے اور شیر بن کر اسے پھاڑ کھائیں گے۔’’
‘‘دفع ہوجاؤ.... ورنہ میں ابھی تمہاری پٹائی شروع کردوں گا!’’ مسٹر کارٹر حلق پھاڑ کر چلائے۔
دونوں عورتیں سراسیمہ اور حیران پریشان بیٹھی یہ سب کارروائی دیکھ رہی تھیں۔ مسز کارٹر نے کہا ‘‘کیا واقعی تم اپنی بات منوانے کے لیے اسے ماروگے....؟’’
‘‘ہاں، میں اس کے مسٹر بلزی سے عاجز آچکا ہوں اور اب تو لڑکے کو بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ مسٹر بلزی کا کوئی وجود نہیں۔ جب وہ دیکھے گا کہ مسٹر بلزی اپنے وعدے کے مطابق اسے بچانے کے لیے نہیں آئے تو وہ جان جائے گا کہ مسٹر بلزی کا وجود فرضی اور خیالی ہے۔’’
یہ کہہ کر مسٹر کارٹر نے جلدی جلدی چائے کے گھونٹ بھرے اور حسب عادت دونوں ہاتھ ملتے ہوئے زینے کی طرف چل پڑے۔ مسز کارٹر اور مسز جیکسن اپنی کرسیوں پر بیٹھی انہیں سائمن کے کمرے کی جانب جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ ان کی نظروں کے سامنے مسٹر کارٹر زینے پر چڑھے اور اوجھل ہوگئے۔
ٹھیک تین منٹ بعد ایک ہولناک گرج سے مکان کے در و دیوار کانپ گئے۔ دونوں عورتیں اچھل پڑیں۔ ان کے چہرے زرد پڑ گئے۔ یوں لگا جیسے کوئی خوفناک درندہ قریب ہی موجود ہو.... مسر کارٹر یک لخت اٹھ کر زینے کی طرف بھاگیں اور مسز جیکسن نے ان کا ساتھ دیا۔ وہ دونوں گرتی پڑتی چھوٹے سائمن کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ چھوٹے اور بڑے دونوں سائمن کا کہیں پتہ نہ تھا۔ دفعتاً مسز کارٹر کی نگاہ بیرونی کھڑکی پر گئی۔ کھلی کھڑکی کے نیچے مسٹر سائمن کارٹر کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی حالت میں پڑی تھی۔
مسز جیکسن نے آگے بڑھ کر اس کا معائنہ کیا ٹانگ پر کسی درندے کے دانتوں کے نشانات واضح طور پر نظر آرہے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے شکار کرکے بھاگتی ہوئی کسی بلی کے جبڑے سے چوہے کا ایک پنجہ گر گیا ہو۔
بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’
برطانوی نژاد مصنف ، ناول نگار اور اسکرین رائٹر |
جان کولیئر 1901 تا 1980 ء
|
جان ہنری نویس کولیئر(3 مئی 1901 - 6 اپریل 1980) ایک برطانوی نژاد مصنف ، ناول نگار اور اسکرین رائٹر تھے ، جو اپنی عجیب و غریب مختصر کہانیوں کے سبب مشہور تھے ، جن میں سے بیشتر 1930 سے 1950 کی دہائی تک دی نیویارکر میں شائع ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کہانیوں کو 1951 میں "فینسی اینڈ گڈ نائٹس" کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ انہیں بین الاقوامی فینٹسی ایوارڈ اور مسٹری رائٹر امریکہ کے ایڈگر ایوارڈ سے نوازاگیا۔ جان کولیئر کی تحریر وں کی انتھونی برجیس ، رے بریڈبیری ، رالڈ ڈہل ، نیل گائمن ، مائیکل چابون ، وینڈھم لیوس ، اور پال تھیروکس جیسے مصنفین نے تعریف کی ہے۔ جان کولیئر 3 مئ 1901ء کو لندن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے چچا ونسیٹ کولیئر سے تعلیم حاصل کی جو خود ایک ناول نگار تھے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں جان کولیئر نے شاعر بننے کا عزم کرلیا اور شاعری لکھنا شروع کی۔ شاعری کے ساتھ جان کولیئر نے فکشن کہانیاں بھی لکھنا شروع کیں اور ان کا پہلا ناول ہِز منکی وائف 1930 میں شایع ہوا۔مختصر کہانیوں، ناولوں کے علاوہ جان کولیئر اسکرین رائٹر بھی رہے اور 1935 میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد انہوں نے کئی فلموں اور ٹی سیریز کی کہانیاں لکھیں جن میں: سلویا سکارلیٹ Sylvia Scarlett (1935) ایلیفینٹ بوائے Elephant Boy (1937) ہر کارڈ بورڈ لور Her Cardboard Lover (1942) ڈیسہیپشن Deception (1946) روز اینا میک کوئے Roseanna McCoy (1949) دی افریقن کوئین The African Queen (1951) اسٹوری آف تھری لور The Story of Three Loves (1953) آئی ایم اے کیمرا I Am A Camera (1955) دی وار لارڈ The War Lord (1965) لائٹس آؤٹ Lights Out (TV Series) ٹیل آف دی ان ایکسپیکٹڈ Tales of the Unexpected (TV Series) جرنی ٹو ان ناؤن Journey to the Unknown (TV Series) شامل ہیں جان کولیئر نے اپنی بقیہ زندگی انگلینڈ ، فرانس اور امریکی ریاستوں کے درمیان گزاری ، وہ میکسیکو میں بھی تھوڑا عرصہ رہے۔ جان کولیئر 6 اپریل 1980 کو کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں فالج کے باعث انتقال کرگئے۔ |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں